کیا حقیقی صحافیوں کو کام کرنے کا اور زندگی گزارنے کا کوئی حق حاصل نہیں؟


آج کل میڈیا پر بہت عذاب آیا ہوا ہے۔ ہرطرف سے یہ ہی اطلاعات ملتی ہیں کہ فلاں چینل نے اتنے صحافی فارغ کردیئے فلاں اخبار نے اتنے۔ صحافیوں کے بے روزگارہونے کی وجہ اخبار ی مالکان کے بقول ان کو حکومت سرکاری اشتہارات نہیں دے رہی تووہ کیسے زیادہ صحافیوں کا بوجھ برداشت کرسکتے ہیں۔ پہلے توان اخبار ی مالکان کو یاد ہونا چاہیے کہ جب پرویز مشرف کے دور حکومت میں ان پراشتہارات کی لگی برسات تھی تو اس وقت کب یہ تنخواہیں بر وقت ادا کر رہے تھے اور آج بہانہ بنایاجا رہا ہے کہ اشتہارات کے بغیر ہم اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔

کچھ صحافیوں کے بقول عمران خان کہتے ہیں کہ سادگی کے اشتہارات چھاپو وہ بھی بغیرکسی پیسے کے بغیر۔ پرویز مشرف کے بعد آصف زرداری اور بعد میں نواز شریف کے دورحکومت میں بھی اشتہارات کا کا روبار عروج پر رہا لیکن اخبار ی مالکان نے پرانا وتیرہ رکھا اور تنخواہیں کھانے کا ان کو چسکا ایسا پڑا کہ اب چسکا الیکٹرانک میڈیاتک پہنچ چکا ہے۔ صحافیوں کا معاشی قتل عام پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں رہی لیکن ابھی تک عام لوگوں کو معلوم نہیں ایک عام صحافی کن حالات سے گزر رہا ہے۔

صحافیوں پربڑی قدغن یہ بھی لگی کہ نجی ٹی وی چینلزپرپیراشوٹرزبھی آنے لگے جن میں ڈاکٹرشاہد مسعود۔ ڈاکٹردانش۔ شاہ زیب خانزادہ۔ وسیم بادامی۔ ان لوگوں کو فی کس کو درجن سے زائد کی ٹیم ملی ہوتی ہے جوان کو مواددیتی ہے اور یہ اپنے پروگرا م میں پیش کردیتے ہیں حالانکہ ان کا قلم قبیلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کئی اچھے اچھے صحافی ان کی ٹیموں کا حصہ ہیں لیکن نہایت ہی معمولی تنخواہوں پرکام کررہے ہیں۔ ان پیراشوٹرز کی وجہ سے اصل صحافی اب بھی دھکے کھانے پرمجبورہیں۔

رہی سہی کسراردو خبروں کی سروس دینے والی ایجنسیوں نے پوری کردی ہے۔ اب وہ خبرکو اتنا حلوہ بناکرپیش کرتی ہیں کہ ایک میٹرک پاس بھی ان کو دیکھ کربارہ صفحہ کا اخبار تیارکرلیتا ہے۔ بڑے بڑے اخبار ات میں صرف ان نیوز ایجنسیوں کی وجہ سے کئی میڑک فیل اور پاس خود کو گریجویٹ ظاہرکرکے بیٹھے ہیں اور اس حلوے کو ہلاجلاکرخبربنادیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پڑے لکھے صحافی ان کے مقابلہ نہیں کرسکتے کیونکہ ایک پڑھے لگے انسان میں ایک ”میں“ ہوتی ہے اس ”میں“ کی وجہ سے وہ بہت پیچھے چلاجاتا ہے جبکہ یہ ایڈیٹروں کی چاپلوسی کرکے اپنا کام نکال رہے ہیں۔

ہر اخبار میں دو یا چار ایسے صحافی ہوتے ہیں جوکہ انگریزی سے اردو کا ترجمہ کرسکتے ہیں باقی نیوز ایجنسیوں کی وجہ سے اخبار ات میں براجمان ہیں۔ اب ان صحافیوں جو کہ والدین کا پیسہ ڈگریوں پرضائع کرکے بیٹھے ہیں اور ہر اخبار میں ذلیل ہونے کے باوجود ان کے مالی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ کچھ کسرصحافتی تنظیموں نے نکال دی ہے جن کے عہدیدار زیادہ تر ایسے نظرآتے ہیں کہ یہ کوئی پراپرٹی ڈیلر ہیں ان کا کمال یہ ہوتاہے کہ ایک چھوٹے سے ڈمی اخبار میں نام لکھوا لیتے ہیں اور اس اخبار کے زور پر سیاست کرتے ہیں۔

پریس کلب ہوں یایونینزان کا قبضہ قائم ہے۔ میرے صحافتی کیرئیر میں ایسے مواقع آئے ہیں کہ ان پڑھ صحافیوں کے قبضہ گروپ اور ان کے ہرکاروں کی وجہ سے میرٹ پرکہیں بھی کسی بھی اچھے اخبار میں ملازمت تک نہیں ملی۔ اخبار ات میں میرٹ پامال کرنے کی خبریں توروزانہ چھپتی ہیں لیکن ان اخبار ات میں کام کرنے والے میرٹ کے بغیرہی جان پہچان کی وجہ سے ملازمت حاصل کرتے ہیں۔ ایسے صحافی جوکہ پڑھے لکھے اور انہوں نے اس شعبے میں دسترس بھی حاصل ہے وہ اب بھی ذلیل ہورہے ہیں دوسری طرف یہ میڑک پاس ایک طرف تو میڈیا پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں اور دوسری طرف ان کے دوسرے بھی کئی کاروبار ہیں۔

رپورٹرز میں بھی ایسی بیسیوں مثالیں موجودہیں جوکہ سارا دن فضول میں پھرتے ہیں۔ اگر کسی محکمے یاسیاسی جماعت سے کوئی انگریزی میں ہینڈ آؤٹ جاری ہوجائے توان کے نئی پریشانی کھڑی ہوجاتی ہے جس کا حل یہ نکال رکھا ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے نیوز ایجنسیوں سے رابطہ رکھا ہوتا ہے اور اپنی بیٹ کی خبریں منگوالیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسے صحافی جو پڑھ لکھ کربھی اس فیلڈ میں خوار ہو رہے ہیں ان کو تعلیم نے اتنا فضول بنا دیا ہے کہ وہ کسی اور کام کے رہے نہیں اور صحافت میں ان کو کوئی پوچھتا تک نہیں ہر کوئی جاوید چوہدری یا حامد میر تو نہیں بن سکتا۔

لیکن یہ صحافی کہتے ہیں کہ ہمیں بھی توجینے کا حق ہے۔ اس کا حل کیا ہے۔ پریشانی کی بات تو یہ کہ سرکاری خبررساں ادارے اور سرکاری ٹی وی چینل میں بھی ایف پاس صحافی سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے براجمان ہیں۔ ان حالات میں ایک جینوئن صحافی کا یہ سوال کہ اس کو بھی جینے کا حق ہے اس کا جواب اس کے دوست یہ دیتے ہیں کہ آپ نے سرکاری ملازمت کرنا تھی کیو ں اپناوقت برباد کیا۔ کیا پاکستان میں دوسرے شعبوں کی طرح صرف سفارش پرآنے والے ہی صحافی کام کرسکتے ہیں اور کیا حقیقی صحافیوں کو کام کرنے کا اور زندگی گزارنے کا کوئی حق حاصل نہیں؟ اس سوال کا جواب کو ن دے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).