عورت اور مرد کے درمیاں شاید امتیازی سلوک کے خاتمے کا حتمی طریقہ


مرد اور عورت ذہنی، جسمانی اور جذباتیت کے طور پر مختلف طاقتیں رکھنے کے حامل ہیں۔ سب سے پہلے خدا نے ہی سب سے پیاری، اہمیت رکھنے والی اور کمال کامل انسان کو ہی بنایا جس میں دو زیادہ پانے والے جنسی فرق نمایاں ہے۔ ان مختلف جنسی فرقوں کی وجہ صرف اور صرف ان کی یکسانیت ہے۔

مگر سندھی میں ایک کہاوت بڑی مشہور ہے۔ جس کو میں اردو میں اپنے انداز و رنگ سے شاید کہ بیان نا کر پاؤں۔ ”دو برتن ہوں گے تو کھٹکھٹاہٹ یقیناً ہوں گی۔ “

بالکل اسی طرح ان دونوں جنسوں میں اسی جنسی فرق کی وجہ سے بڑا فرق واضح رہا ہے۔ جیسے جیسے معاشرے ترقی کی راہوں میں آتے گئے، کام بڑھتا گیا ویسے ویسے مرد اور عورت میں امتیازی سلوک نے جنم لیتے لیتے ایک بہت بڑا عرشہ بنا دیا۔

اور یہ فرق جب لوگوں کو نمایاں ہوا تو اس بڑھتے خلا کے خاتمے کے مختلف حربوں کرتے لوگوں نے جنم لیا۔ وہ لوگ: مرد اور عورت، دونوں نے اس خلا کو پر کرنے کے لئے کام کرنا شروع کردیا۔ اس نسوانیت میں بڑھ چڑھ کر کام کرنے سے ان لوگوں (مرد اور عورت) نے تحریک نسواں کے نام سے مقبولیت حاصل کی۔ جن میں عورتوں کو مساوی حق دینے کا نظریہ لازم تھا۔ اس مساوی حق میں تحرِیکِ نِسواں نے وہ وکالت کی اینٹ رکھی جس میں عورت کو معاشرے میں سیاسی، سماجی اور اقتصادی مساوات کے درجات حاصل ہوں۔

مگر ایک سوال اس تحریک کو چلانے والوں سے کہ وہ اس خبر سے بے خبر ہیں کہ وہ نشست، مذاکرہ اور دیگر اقدامات اٹھاتے ہیں اس امتیازی سلوک کے خاتمے کے لئے، ان سے بس ایک سوال کہ بجائے مرد اور عورت کو ایک جگہ جمع کر کے مذاکر ہ کرنے سے کبھی حقوق نسواں کے حامیوں نے اس عورت کے اندر جھونکا ہے جو اپنے ساتھ رہنے والی دوسری عورت کے لئے دل میں کیا مقام رکھتی ہے؟

کبھی عورت مرد کی برابری کے حامیوں نے یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ ایک عورت کے اندر دوسری عورت کے لئے کیا عزت ہے؟ کیا ایک عورت واقعی چاہتی ہے کہ یہ سلوک ختم ہو؟ اگر ہاں تو وہ عورت اس سوال کے جواب میں کیا کہے گی جو اپنے بیٹے کو اپنی دادی، پھوپھو، ممانی اور دیگر عورتوں کے خلاف کان بھرتی ہے۔

وہ عورت اس سوال کے جواب میں بھی کیا وجہ سنائے گی جب وہ اپنے شوہر کو اس کی ماں اور بہنوں کے خلاف کہانی گھڑ کر بیان کرتی ہے۔ وہ عورت اس بات پر شرمندہ کیوں نہیں ہوتی جب وہ اپنے بیٹے کو اس کی بیوی کی برائیاں کرتی ہے اور اپنے بیٹے کو کیا درس دیتی ہے؟ اس کو اس بات کا اندازہ ہے کہ وہ ایک عورت سے جل کر اپنے بیٹے کی دل میں ایک عورت کے لئے ہی نفرت پیدا کر رہی ہے۔

اور سب سے حیران کرنے والی بات یہ کہ اشرافیہ طبقے اور تعلیم یافتہ لوگوں کے گھروں میں بھی یہ سلسلہ بڑی تیزی سے چل رہا ہے اور آنے والی نسلوں خاص طور پر نوجوان لڑکوں کے ذہنوں میں امتیازی سلوک میں اضافہ ہو رہا ہے۔

کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک عورت دوسری عورت کی وکالت کرے جب شوہر اس پر ہاتھ اٹھائے۔ جب بیٹا ماں پر چلائے اور جب ایک بھائی بہن کو غیرت کی آڑ میں آگ میں راکھ کر دے۔

ایک مرد کی پرورش ایک عورت کرتی ہے۔ جب چار دیواری میں ایک عورت ہی حکمرانی کر رہی ہے تو دوسری عورت کو حقوق تو کیا ہر آئے دن ذلت کا سامنہ کرنا پڑھ رہا ہے وہ بھی ایک عورت کی ہی وجہ سے۔

کیا اس امتیازی سلوک کے خاتمے کا حل وہ یوں نہیں نکال سکتے کہ جب ایک عورت ہر عورت میں خود کو پائے گی۔ ہر عورت کی بے عزتی اسے اپنی لگے گی۔ ہر عورت کے لئے وہ اقدامات اٹھائی گی۔ جب شوہر اپنی بیوی سے لڑنے لگے تب ساس ماں بن کر اپنے بیٹے کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو جائے۔ اس کا درد اپنا سمجھنے لگے۔ تب ہی یہ تشدد کا سلسلہ شاید کسی موڑ پر آ کر رک جائے، تھم جائے۔

عورت ہی اپنے بیٹوں کی اچھی پرورش کرنا شروع کر دے اور اسے باقی اخلاقیات کے ساتھ ہر عورت کی عزت کرنا بھی سکھا دے۔ اگر اس کام میں دیر ہو گئی ہے تو وہ جب تک خود عزت نہیں کرے گی اپنی ساس کی، اپنی نند کی، اپنی جھٹانی کی، اپنی دیورانی کی اور اپنی بہو کی تب تک وہ اپنے بیٹے کو کبھی عورت کی عزت کرنا نہیں سیکھا پائے گی اور جب ایک مرد عورت کی عزت نہیں کرے گا ایک گھر کے اندر ہی تو وہ کیسے باہر جا کر دوسری عورتوں کے حقوق میں آواز بند کرے گا۔ جب ایک عورت اپنے گھر کے اندر خود ہی وجہ بنے گی ایک عورت پر مظالم برسنے کی تو وہ باہر جا کر دوسری عورتوں کو معاشرے میں کیا حقوق دلا پائے گی؟

ہر برے، خراب اور بگڑے عمل کی اصلاح گھر سے ہی شروع ہوتی ہے۔ اور اگر وہ عورت یہ نہیں کرے گی تو کل اس کی بیٹی بھی اپنی بے عزتی، اپنی ذلت اور اپنے ساتھ کیے مظالم کا رونا ہی روئے گی اور یہ سلسلہ لاحاصل بن جائے گا۔ بھلے باہر سڑکوں پر نکلے حقوق نسواں کے حامی اپنی جانیں ہی کیوں نا قربان کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).