کے ایل سہگل کو رخصت ہوئے 72 برس گزر گئے


بادشاہوں، راجواڑوں اورنوابوں کو سدا ہی مدھر تان کے ساتھ پرکشش گائیک میسر رہے ہیں لیکن ایک عام آدمی کے لئے گرامو فون کسی تحفے سے کم نہیں تھا جہاں آپ توے جیسی پلیٹ (ڈسک) لگا کر آج بھی اس مدھرتا کا لطف لے سکتے ہیں جواب نا پید نظر آتی ہے۔ یہ شاندار ریکارڈز ہم سب کا قیمتی تاریخی اثاثہ ہیں۔ ان سدا بہار گیتوں کے خزانے کو اب انٹر نیٹ پر بھی سنا جا سکتا ہے۔ فن مو سیقی سے محبت رکھنے وال شمشاد بیگم، طلعت محمود، بیگم اختر۔ استاد بڑے غلام علی اور بسم اللہ خان کا فن ہر ایک کی دسترس میں ہے۔ ان آوازوں کو سن کر یہ بات درست معلوم ہو تی ہے کہ مو سیقی روح کی غذا ہے۔ اس کے سحرسے نکلنا آسان نہیں۔

مو سیقی کا جادو ہندو ستانی فلمی دنیا کے آغاز سے چھایا نظر آتا ہے بر صغیر میں کسی بھی فلم کی کامیابی میں گلوکاری اور مو سیقی اہم کردار کے حامل رہے ہیں تقسیم سے قبل یہ روایت بھی رہی تھی کہ اداکاروں کی اکثریت اچھی گلوکار بھی تھی اور اپنی فلموں کے دونوں ستون کامیابی سے اٹھا ئے ساتھ چلنے کی مہا رت رکھتی تھی۔ انہی باصلا حیت اداکاروں اور  گلوکا روں میں ایک بڑا نا م کند ن لال سہگل کا ہے جو اپنی آواز کی جا د وگری اور بے مثل ادا کاری کے لئے مشہور ہو ئے۔

گیارہ اپریل 1904 ء کو ریا ست جموں کے ایک گا ؤں جا لندھر میں کند ن لا ل سہگل پیدا ہو ئے۔ ان کے والد امر چند سہگل ریا ست کشمیر کے مہا راجا کے ہاں تحصیل دار کے منصب پر تھے۔ سہگل پانچ بہن بھائی تھے۔ ان کو بچپن سے ہی گانے کا شوق تھا، جس کی حوصلہ افزائی ان کی والدہ کیسر بائی کیا کر تی تھیں۔ سہگل کے ساتھ مل کر وہ بھجن بھی گایا کر تی تھیں۔ والد امر چند سہگل گا ئیکی کے سخت مخالف تھے۔ مذہبی تہواروں کی حد تک وہ کچھ نرم تھے۔

کے ایل سہگل کم عمری سے ہی رام لیلا سیتا جیسے تا ریخی اسٹیج ڈراموں میں کردار بڑے شوق سے ادا کر تے گیت بھی سہگل خود گایا کر تے اور خوب داد پا تے جس سے شوق نے ان کے اندر مزیدجلا پائی۔ وہ خود ہی اپنی گائیکی کو بہتر بنانے کے لئے ریاض کرتے۔ گھر والوں سے چھپ کرمزید سیکھنے کے لئے صو فیوں سنتوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا۔ سہگل نے کبھی باقاعدہ گائیکی کی تربیت حاصل نہیں کی تھی ان میں یہ صلاحیت خداداد پائی جا تی تھی۔ شاستریہ را گوں پر سہگل کو خوب مہارت تھی۔ ایک با ر استاد فیاض خان نے ان سے کہا تھا کہ ”تمھا رے اندر موسیقی خدا کی دین ہے۔ تمھیں کسی استاد کی ضرورت نہیں“ سہگل بنگلہ، ہندی، فارسی، اردو، ہندی اور پنجا بی زبان میں مہارت سے گا نے گا تے تھے۔

1928 ء میں جب ان کی عمر 24 بر س تھی ملا زمت کے لئے دہلی آئے ان کے بڑے بھا ئی رام لال دہلی ریلوے میں ملازم تھے ان کے سا تھ رہنے لگے دوسال تک دہلی الیکٹر ک ڈیپارٹمنٹ میں بطور الیکٹر یشن کام کیا۔ کچھ عر صے ٹائپ رائٹر سیلز مین کا بھی کام کیا۔ ان کی مدھرگا ئیکی دوستوں کی محفلوں میں رونق لگا تی رہی۔ سا تھیوں کے مشورے پر 1930 ء میں کلکتہ جا کر نیو تھیٹر کے ما لک بی این سرکار سے ملے جو ان کی گا ئیکی سے بہت متاثر ہوئے اور تین سو ماہوار پر اپنے تھیٹر میں بطور گلوکار و ادکا ر ملازمت دے دی۔

1932 ء میں ان کی پہلی فلم ’محبت کے آنسو، پیش کی گئی اس کے بعد‘ زندہ لا ش، اور ’صبح کا تارا، نما ئش کے لئے آئیں مگر فلم بینو ں کو زیا دہ متاثر نہ کر سکیں۔ 1935ء میں بنگالی فلم‘ چنڈی داس، میں بطور ہیرو اپنی اداکاری وگلوکاری کے جو ہر دکھائے۔ قسمت نے یا وری کی۔ با کس آفس پر بڑی ہٹ فلم ثا بت ہوئی نہ صر ف کندن لال سہگل بلکہ ہدایت کار نتن بوس بطور ہدا یتکار پہچانے جانے لگے اس فلم کے بھجنوں کو بہت پسند کیا گیا۔

سہگل کی دوسری اہم فلم دیو دا س جس کے ہدایت کا ر سی پی برو ا تھے انھوں نے یہ فلم پہلے بنگالی میں بنائی تھی اس کے ہیرو بھی خود تھے لیکن اب ہندی میں دیو داس کے لئے بطور ہیرو سہگل کو کاسٹ کیا گیا۔ 1935ء میں جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو سہگل اداکار و گلو کار کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوانے میں کا میاب ہو گئے اس فلم کے دو گا نے ’’با لم آن بسو مورے من میں” اور ’’دکھ کے دن بیتت نا ہی” اپنی منفر د آواز کے ساتھ کانوں میں رس گھو لتے ہیں۔

کامیابی کا یہ سلسلہ مزید آگے بڑھا۔ سہگل نے نیو تھیٹر کے ساتھ مل کر پریسیڈینٹ، دشمن، اسٹر یٹ سنگر، دھر آتما اور زندگی فلم میں کا م کیا جن کے کئی گیت سپرہٹ ہو ئے فلم پریسیڈنت کا نغمہ ’اک بنگلہ بنے نیا را، فلم دھر ماتما کا گانا‘ دنیا رنگ رنگیلی، اور فلم زندگی کا ’گیت سو جا راجکما ری سو جا، سپر ہٹ ثا بت ہوئے اور زبان و زد خاص و عام رہے۔ سہگل اپنی گلو کاری کی قیمت سے وا قف تھے۔ اسی لئے ہندوستانی ریکا ڈنگ کمپنی سے معا ہدہ کیا جس کی و جہ سے انھیں گا نو ں کی رائلٹی سے حصہ ملنے لگا اس سے قبل سا ری رقم فلمساز کو ملتی تھی۔ یہ قانون آج بھی را ئج ہے۔

1942 ء میں سہگل کلکتہ سے بمبئی آئے جہاں رنجیت مودی فلمزکے سا تھ تین فلموں کا معا ہدہ کیا اس زمانے کے حساب سے ایک بڑی رقم ڈیڑھ لاکھ بطور معا وضہ وصول کی اس وقت کی مشہور گلوکارہ و ادا کا رہ ثریا کے سا تھ بھی انھوں نے تین فلموں عمرخیام، پروانہ اور تدبیر میں اداکا ری کے جوہر دکھا ئے۔ بمبئی میں بہترین آسا ئش کے ساتھ رہے۔ فلم مکمل ہو نے کے بعد پھر کلکتہ چلے گئے۔

ایک جانب سہگل جانفشانی سے فلموں میں کام کر رہے تھے تو دوسری جانب انھوں نے شراب نوشی کی عادت بھی اپنا لی تھی جس سے ان کی صحت کو بہت نقصان ہو رہا تھا۔ کئی بیماریوں نے انھیں آ گھیرا تھا۔ سہگل بالکل بھی ڈاکٹروں کی ہدایت پر عمل نہیں کر رہے تھے۔ کثرت شراب نو شی نے ان کے کیریر کو بھی سخت نقصان پہنچایا۔ فلم ’شا ہجہاں، میں گا نے کی ریکا ڈنگ کراتے وقت انھیں بہت تکلیفوں کا سا منا کرنا پڑا۔ یہ سہگل کی آخری فلم تھی۔ اس فلم نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ اس کے گیت سدا بہار گانوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

مسلسل علاج کے باوجود فنکار جب سنبھل نہ پایا تو اسے دسمبر 1946ء میں جالندھر کے ایک معروف ہسپتال میں لایا گیا جہاں وہ اپنی بیما ری سے لڑتے ہوئے 18 جنوری 1947ء کو رخصت ہوا۔ سحر انگیز سہگل اپنے مداحوں کو اداس کر گیا۔ کندن لال سہگل نے اپنی مختصر سی زندگی میں وہ شہرت اور بلندی حا صل کی جو ہر فنکار کا خواب ہو تی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).