رنگ دھوکہ ہے، نظر دھوکہ ہے، عقل دھوکہ ہے


”تمہیں پتہ ہے کہ رنگ دھوکہ ہیں؟ “

”وہ کیسے؟ “

”وہ اس طرح کہ کچھ رنگ ہمیں نظر آتے ہیں پر وہ ہوتے نہیں۔ “

”کیا کہہ رہے ہو؟ رنگ نظر آتے ہیں تو ہوتے کیوں نہیں؟ “

”یہی تو دھوکہ ہے۔ چلو میں سمجھاتا ہوں۔ تمہیں یہ سفید رنگ کی دیوار نظر آ رہی ہے ناں۔ “

”ہاں یہ جو سامنے ہے۔ “

”اور تمہیں پتہ ہے کہ دیوار ایٹمز atoms سے ملکر بنی ہوئی ہے اور روشنی فوٹانز photons سے۔ اب نہ تو کوئی ایٹم سفید رنگ کے ہوتے ہیں، اور نہ ہی فوٹون photon۔ درحقیقت مختلف رنگوں کے بہت سے فوٹون جب ایک خاص تناسب سے ہماری آنکھوں میں داخل ہوتے ہیں تو سفید رنگ کا تاثر پیدا کرتے ہیں۔ “

”تم یہ کہہ رہے ہو کہ اگر ہم ہر فوٹون کو انفرادی طور پر دیکھ پائیں تو ہمیں کبھی سفید رنگ نظر نہیں آئے گا؟ اور اس لیے سفید رنگ ایک دھوکہ ہے؟ پر بہت سے رنگ سچے بھی تو ہیں۔ “

”ہاں ہیں۔ پر کیا تمہیں پتہ ہے کہ نظر بھی دھوکہ ہے۔ “

” کیونکہ ہمیں ایسے رنگ نظر آتے ہیں جو ہوتے نہیں؟ “

”یوں بھی۔ اور اس وجہ سے بھی کہ ہمارا دماغ ہر وقت خود سے ہمارے سامنے موجود منظر میں رنگ بھر رہا ہوتا ہے۔ “

”ہاں اگر ہم فاترالعقل ہوں۔ یا کمزوری یا کسی بیماری کی وجہ سے ہیولے نظر آ رہے ہوں۔ “

”نہیں بھئی۔ ہر انسان کا دماغ ہر وقت منظر میں رنگ ڈال رہا ہوتا ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں، اس کا عکس پہلے آنکھ کے پردے پر بنتا ہے؟ اور اس پردے میں ایک جگہ ایک بلائنڈ سپاٹ blind spot ہے جہاں پر بننے والے کسی عکس کی معلومات دماغ تک نہیں پہنچ سکتیں؟ “

”تو پھر؟ “

”تو پھر ہمیں ہر منظر میں ایک سیاہ دھبا نظر آنا چاہیے۔ “

”ہاں آنا تو چاہیے۔ “

”پر نہیں آتا۔ کیونکہ ہمارا دماغ اس سیاہ دھبے والی جگہ پر آس پاس کے رنگوں کی مناسبت سے خود ہی سے رنگ بھر دیتا ہے۔ “

”نہیں یار۔ سچ میں؟ “

”سچ میں۔ سائنس کی کسی کتاب میں ڈھونڈ لو۔ “

”تو اسی لیے تم کہتے ہو کہ نظر دھوکہ ہے۔ “

”ہاں۔ اور اگر تم یہاں تک پہنچ ہی گئے ہو تو آخری بات بھی سن لو۔ “

”سناؤ۔ “

”عقل دھوکہ ہے۔ “

”اب تم مذاق کر رہے ہو۔ “

”بھئی جب دماغ خودبخود ہمارے علم میں لائے بغیر منظر میں رنگ بھر سکتا ہے، تو پھر ایک خاص انداز سے ہماری سوچ کے سلسلے کو متاثر کیوں نہیں کر سکتا؟ “

”تم یہ بھول رہے ہو کہ سوچنے کا کام بہرحال دماغ ہی نے کرنا ہے۔ اب یہ سوچ دائروں میں سفر کرے یا بلندی یا پستی کی جانب، اس میں انسان کے اپنے مزاج، اس کی تعلیم و تربیت، اس کے ساتھ پیش آنے والے حالات سمیت بہت سے عوامل کارفرما ہوں گے۔ ان سب کو نظرانداز کر کے عقل کو ہی دھوکہ کہہ دینا کیا مناسب بات ہے؟ “

”چلو تم سے ایک سوال پوچھتا ہوں۔ یہ بات تو مانتے ہو ناں کہ سوچ کے سلسلوں کا تعلق دماغ میں موجود نیورونز neurones کے آپس کے تعامل اور کمیونیکیشن سے ہے۔ “

”ہاں۔ “

”اور نیورونز کی یہ کمیونیکیشن اور تعامل دماغ میں موجود الیکٹریکل اور کیمیکل پوٹینشل کے عدم توازن کی وجہ سے ہے۔ “

”ہاں۔ کم از کم سائنس یہی کہتی ہے۔ “

”تو پھر سوچ اس نیورونل تعامل neuronal activity اور ان کے پیچھے موجود کیمیکل اور الیکٹریکل پوٹینشل کے عدم توازن کا نتیجہ ہے؟ یا اس عدم توازن کا محرک؟ “

”معلوم نہیں۔ تم بتاؤ۔ “

”مجھے بھی معلوم نہیں۔ پر اگر سوچ کو محرک مانا جائے تو اس کا مطلب ہو گا کہ مادے میں سوچ کے ذریعے تبدیلی لائی جا سکتی ہے، (mind can move matter) ، اور اس کے ساتھ ہی آج تک کی کی گئی تمام سائنس پر سوالیہ نشان کھڑا ہو جائے گا۔ دوسری طرف اگر سوچ کو نتیجہ مانا جائے، جس کا امکان غالب ہے، تو پھر سوچ کا عمل ایک دھوکہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم خود سے کسی بات پر غوروفکر کر کے، آزاد سوچ کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچے ہیں، پر درحقیقت فطرت کے قوانین ایک خاص انداز میں ہمارے دماغ میں موجود کیمیکل اور الیکٹریکل پوٹینشل کے عدم توازن کو درست کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ اور اس دوران ہمارا دماغ ہمارے شعور کے پردے پر سوچ کے سلسلے کی منظر کشی کر رہا ہوتا ہے۔ “

”دلچسپ۔ مگر تم یہ بھول گئے کہ تمھاری ساری بات، اور یہ دلیل بھی سوچ کے اسی سلسلے کی مرہون منت ہے، جسے تم خود دھوکہ کہہ رہے ہو۔ “

”ہاں میں جانتا ہوں۔ میں غلط ہو سکتا ہوں۔ تم بھی غلط ہو سکتے ہو۔ ہم سب غلط ہو سکتے ہیں۔ مگر کوئی صحیح بھی تو ہو گا۔ جیسے تم نے خود کہا، بہت سے جھوٹے رنگوں کے ساتھ کچھ سچے رنگ بھی تو ہوں گے۔ ان سچے رنگوں کی تلاش ہی اصل الجھن اور پہیلی ہے۔ “

” الجھن تو تم نے اپنے لئے خود پیدا کی ہے سوچ پر سوال اٹھا کر، ورنہ رنگ، نظر اور عقل کے انہی دھوکوں کے ہوتے ہوئے انسان نے سائنس کی مدد سے کائنات کے بہت سے راز سمجھ لیے ہیں۔ اور وہ کائنات کی تسخیر کے لیے کوشاں بھی ہے، اور بہت حد تک کامیاب بھی۔ کیا یہ سب بھی غلط، جھوٹ اور دھوکہ ہے؟ “

”ارے بھئی سائنس کے سچ اور اپنے سچ کے فرق کو تو پہچانو۔ سائنس کا سفر تو کبھی رکنے والا نہیں۔ اس کا سچ تو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے، جو سائنس آج کہہ رہی ہے وہ شاید پانچ سو سال بعد نہیں کہہ رہی ہوگی۔ مگر مجھے اور تمہیں تو اپنا سچ اسی زندگی میں ڈھونڈنا ہے۔ اب یہ سچ کیسے ڈھونڈا جائے گا، یہ مجھے معلوم نہیں۔ کیا یہ سچ سائنس میں ملے گا جہاں کھرے اور کھوٹے کی پہچان آسان ہے، مگر جو خود ہر وقت بدلتی رہتی ہے؟

یا مذہب میں جہاں آفاقی حقیقتوں کے دعوے ہیں، مگر انہیں پرکھنا، اور کھرے کھوٹے میں تمیز کرنا آسان نہیں؟ مجھے نہیں معلوم۔ کیا اس سچ تک صرف دنیا کی بہترین یونیورسٹیز میں کام کرنے والے اساتذہ اور فلاسفر ہی پہنچ سکتے ہیں؟ یا دور دراز کے گاؤں گوٹھوں کے لکڑہارے، چرواہے، اور کسان بھی؟ کیا یہ سچ ہمارے آس پاس بکھرا پڑا ہے؟ یا اس کے لیے پہاڑوں، صحراؤں، اور خلاؤں کا سفر شرط ہے؟ کیا سچ جاننے کھوجنے، اور کریدنے کا نام ہے؟

یا مان جانے کا؟ کیا اس کے لیے عقل اور منطق کی قلابازیاں چاہیے ہوتی ہیں، یا عشق اور محبت کی سپردگی؟ کیا سچ جاننے کے لئے بیس پچیس طرح کے علوم حاصل کرنے پڑتے ہیں؟ یا یہ سچ خود میں مل جاتا ہے؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوال ہیں جن کے نہ تو جواب مجھے معلوم ہیں، اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ جواب ڈھونڈنے کیسے ہیں۔ ہاں ایک بات مجھے معلوم ہے۔ ”

”وہ کیا؟ “

”رنگ دھوکہ ہے، نظر دھوکہ ہے، عقل دھوکہ ہے۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).