سی پیک سے بے خبر ڈمی بلوچستانی قیادت


سی پیک بلوچستان کی صورتحال نے جام صراحی اور ساقی کو پریشان کررکھا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر بلوچستانی ساقی بھی اس کو ایک پیگ کی حد سے زیادہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔

اخبارات میں خبر پڑھی کہ بلوچستان کے کوٹے پر دیگر صوبوں کے طلباء و طالبات کو چین بھجوایا گیا ہے۔ جستجو کے ساتھ حقائق تلاش کرنے کی غرض سے بلوچستان کے مختلف سرکاری دفاتر کی خاک چھانتے ہوئے ان خبروں کی مزید تفصیل حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ کہ یہ سکالر شپ کس طریقے سے طلبا و طالبات کو آفر کی جاتی ہیں اور یہ کس کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ کوئی ایچ ای سی، کوئی وفاقی حکومت تو کوئی چین کے سفارت خانے کے ذریعے اس کی تقسیم کے متعلق غیر مصدقہ معلومات رکھتا ہے۔

جب افسر شاہی معلومات سے محروم ہو تو عام آدمی سے کیا گلہ کیا جاسکتا ہے۔ سی پیک جس کو سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم خان رئیسانی سیل پیک کہتے ہیں، کے اسکالرشپ کے حقائق تو معلوم نہ کرسکا تاہم مجھ پر بہت ساری باتیں آشکار ہو گئیں ہیں، وہ یہ کہ سی پیک کے حوالے سے حکومت بلوچستان کے پاس کوئی آئیڈیا نہیں ہے جو بھی اسلام آباد میں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن اس سلسلے میں پالیسی وضع کرتا ہے یا پھر کوئی معاہدہ کرتا ہے تو صوبے کی نالائق حکمران اور بیوروکریسی نہ صرف اس پر ہمیشہ لبیک کہتے آرہے ہیں بلکہ اس کو من و عن قبول بھی کیا ہے۔

اور چار سال ہوئے ہیں کہ سی پیک پر بلوچستان کے علاوہ دیگر تمام صوبوں نے نہ صرف سیل قائم کیے بلکہ مکمل طور پر پلان بھی بنوایا ہے، جبکہ بلوچستان واحد صوبہ ہے جس کا سی پیک کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس سلسلے میں تاحال کوئی محمکہ بنانا تو دور کی بات، سیل تک قائم نہیں کیا۔ اس سے بڑی غفلت اور کیا ہو سکتی ہے۔ سی پیک کو دیکھنے کا چارج دیا بھی تو 20 دیگر پروجیکٹ کو پلاننگ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں دیکھنے والے ایک چیف آف سیکشن کو، جن کے پاس 20 پروجیکٹس دیکھنے کی اور ذمہ درایاں بھی تھیں۔

ان کو 21 ویں ذمہ داری سی پیک کی صورت میں دی گئی اللہ بھلا کرے جی پی ایس اور ورلڈ بینک کے بلوچستان کے پروجیکٹ چیف سابق سیکرٹری فنانس محفوظ علی خان کا کہ انہوں نے صوبے کے ایک ہمدرد کے طور پر ورلڈ بینک کے خرچے پر پرائیویٹ ایکسپرٹ تعینات کیے اوران کی خدمات بلوچستان حکومت کے حوالے کیں تاکہ سی پیک پر وہ حکومت کی رہنمائی کر سکے۔ مجھے یہ معلوم ہوا کہ سی پیک کے حوالے سے موجودہ وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان نہ صرف سی پیک کے معاملے میں ایک فعال کپتان کے طور پر واضح موقف رکھتے ہیں بلکہ انہوں نے ان اس منصوبے کو اون بھی کیا ہے جب ان کو بریفنگ کے دوران معلوم ہوا کہ صوبے کو سی پیک میں مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا تو انہوں نے چین کے سفیر کو کوئٹہ طلب کیا اور صوبائی حکومت کا سخت ترین موقف ان کے سامنے رکھ دیا واقفان حال کہتے ہیں کہ چین کے سفیر سے بات چیت کے دوران سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا کہ سفیر ناراض بھی ہوئے۔

چین کے سفیر نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو بتایا کہ منصوبوں میں تبدیلی کے لئے اب کچھ نہیں ہوسکتا ہے جو کچھ کرنا تھا وہ ہوچکا ہے جس کے بعد سی پیک کے حوالے سے پاک چائنا فورم جی سی سی جس کا اجلاس چین میں ہوتا ہے اجلاس میں شرکت کی دعوت وزیراعلیٰ بلوچستان کو ملی تو انہوں نے معذرت کردی اور کہہ دیا کہ جب سب کچھ ہو چکا ہے تو پھر وہ ڈمی حیثیت میں شرکت نہیں کرسکتے اور اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ سی پیک کے حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان کا انتہائی سخت اور واضح موقف اس قدر سخت ہے کہ بلوچستان کے قوم پرست بھی ان کے مقابلے میں کچھ نہیں۔

اگرچہ گوادر میں سی پیک کے تحت تھوڑا بہت کام ہوا ہے۔ یہاں پر بہت سارے سوالات اٹھتے ہیں کہ گزشتہ 5 سال تک برسراقتدار رہنے والے قوم پرستی کا لبادہ اوڑھے ہوئے صوبائی حکومت نے اس پروجیکٹ پر مجرمانہ خاموشی کیوں اختیار کی تھی؟ ہمارے حکمران کم پڑھے لکھے سہی لیکن کیا بلوچستانی بیوروکریسی بھی ان پڑھ تھی۔ انہوں نے اس اہم پروجیکٹ پر مجرمانہ خاموشی کیوں اختیار کی تھی حکومت وقت کو اس بات پر قائل کیوں نہیں کیا کہ سی پیک میں بلوچستان کو جو حصہ دیا گیا ہے وہ اس کے حق سے کم ہے سی پیک میں بلوچستان کا کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ حصہ کتنا ہونا چاہیے یہ بتانا ان کا فرض تھا

سی پیک کے حوالے سے سابق وفاقی وزیر احسن اقبال اور وفاقی بیوروکریسی نے مسلسل جھوٹ بولا جبکہ بلوچستان کی حکومت کے ارکان اور بیوروکریسی نے ہمیشہ سی پیک کے حوالے سے پلاننگ ڈویژن میں ہونے والے اجلاسوں میں بغیر تیاری کے شرکت کی۔ جس کا فائدہ سابق وفاقی حکومت نے اٹھایا جب کہ نقصان بلوچستان کو ہوا۔ سرمایہ کاری اور شروع ہونے والے پروجیکٹ پنجاب منتقل کیے گئے۔ جبکہ بلوچستان کے موجودہ وزیراعلیٰ نے ایک جاندار موقف لیا تو وفاقی حکومت کہتی ہے کہ ملک کے معاشی حالت ٹھیک نہیں ہے جس کی وجہ سے بلوچستان میں صوبائی حکومت کے منشا کے مطابق کام شروع نہیں کیا جاسکتا۔

جبکہ دوسری جانب بلوچستان کے لائن ڈپارٹمنٹ جس میں مائنز انیڈ منرلز، انڈسٹریز، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ قابل ذکر ہیں۔ جن میں مختلف پروجیکٹس سی پیک سے متعلق آنے تھے۔ نے غفلت کی انتہا کرتے ہوئے پی سی ون اور فیزیبلٹی رپورٹ تک بنانے سے قاصر رہے۔ بلکہ تاحال ایسا کرنے میں ناکام ہے۔ کیونکہ کوآرڈینیشن سیل ہیں اور اس پر بات کی جا سکتی ہے۔ بغیر اس کاغذات کے وہاں مدلل بات کرنا ممکن نہیں۔ اور فیزبیلٹی رپورٹ کے بغیر کون ہو گا جو یہاں آکر سرمایہ کاری کرے گا۔

بطور صوبہ انفراسٹرکچر نہیں بنایا ہے اور نہ ہی سیکورٹی کے حوالے سے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ پرائیویٹ انویسٹر ان سب چیزوں کو دیکھ کر آئے گا۔ جبکہ پنجاب میں سب کچھ کیا گیا ہے۔ ہم بات کرتے ہیں کہ فلان انڈسٹریل زون ہے لیکن وہاں پر نہ پانی ہے نہ بجلی ہے نہ وہاں روڈ ہے۔ ماضی کی صوبائی حکومت نے بھی زبانی جمع خرچ سے کام چلایا۔ چینی سفیر نے وزیراعلی بلوچستان سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ ہم اپنے پلے سے کام کرانا چاہتے ہیں آپ بتا دیں کہ فیزبلٹی رپورٹ کہاں ہیں۔

آپ کی مدد کے خواہشمند ہیں لیکن آپ بتائیں ہم جو کام کریں گے اس کے لئے پانی اور سیکورٹی کی ضرورت ہوگی اس سلسلے میں آپ لوگوں نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں انڈسٹریل زونز دیگر کی فیزبلیٹیز رپورٹ جب تک موجود نہیں۔ کام مکمن نہیں ہے۔ گزشتہ پانچ سال سے ہم یہی رونا رو رہے ہیں کہ یہ سی پیک آ رہا ہے جس کا ہم بطور صوبہ چیلنجز کے بارے میں کوئی سوچ و بچار نہیں کی، اور نہ ہی کوئی قدم اٹھائے۔ جو صوبہ چھ سالوں میں ایک ونگ سی پیک کے لئے بنانے میں ناکام ہو اس کی سنجیدگی کا کیا یقین کیا جائے؟ اب وزیراعلی کو پتہ چل گیا ہے کہ سی پیک میں ہماری حیثیت کیا ہے ماضی میں وزراء اعلی اس مکمل طور پر بے خبر رہے ہیں کہ سی پیک کے تحت یہاں کیا کام ہو رہا ہے

موجودہ صوبائی حکومت نے اگر سی پیک پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو تاریخ ان کو بھی معاف نہیں کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).