اسرائیل، کشمیر میں برطانیہ کا کردار اور پاکستان کا موقف


آج سے ایک صدی پہلے اسرائیل کا کوئی وجود نہیں تھا فلسطین پورے کا پورا خلافت عثمانیہ کا صوبہ تھا۔ فلسطین بیت المقدس سمیت یہ پورا خطہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانے میں فتح ہوا تھا۔ حضرت ابو عبیدہ عامر بن جراہ رضی اللہ عنہ اس علاقے کے فاتح ہیں۔ جب بیت المقدس فتح ہوا تو امیر المومین عمر فاروق رضی اللہ عنہ خود تشریف لائے اور عیسائی پادریوں سے خود چارج لیا تھا یہودیوں پر جو پابندی عائد تھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس حد تک ختم کیں کہ یہودیوں کو ان کی عبادت گاہ تک اجازت تھی وہ دیوار گرجا میں آ کر اپنی عبادت کر سکتے ہیں۔

یہ پابندی 1924 تک خلافت عثمانیہ کے خاتمے تک رہی۔ ایک صدی پہلے تک فلسطین میں یہودیوں کی آبادی دو فیصد تک تھی۔ خلافت عثمانیہ میں یہودیوں کو اپنی دیوار پر آکر عبادت کرنے کی تو اجازت تھی لیکن خلافت عثمانیہ جو کم و پیش چار صدیوں پر محیط رہی ہے فلسطین میں یہودیوں کو زمین خریدنے اور وہاں آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ اگر یہودیوں کو زمین خریدنے کی اجازت دے دی جاتی تو خدشہ تھا کہ وہ بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر لیں گے۔

اب سے ایک ڈیڑھ صدی پہلے یہودیوں نے عالمی سطح پر پروگرام بنایا ہم نے فلسطین پر دوبارہ آباد ہو کر دنیا بھر سے جو یہودی کہیں بھی ہیں ان کو لا کر اپنا سابقہ دور واپس لانا ہے اسرائیل کے نام سے ایک ریاست قائم کرنی ہے، جو حضرت سیلمان علیہ السلام کے زمانے میں ان کی بڑی ریاست تھی اس کو دوبارہ بحال کرنا ہے۔ خلافت عثمانیہ کے دور میں خلیفہ عبدالحمیدثانی ؒ جو اس وقت خلافت عثمانیہ کے تاجدار تھے یہودیوں نے ملاقاتیں کی اور فلسطین میں زمین خریدنے کی اجازت مانگی خلیفہ نے اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ حالات ایسے پیدا ہوئے خلافت عثمانیہ خود مسائل کا شکار ہو گی خلیفہ کو معزول کرکے قید کر دیا۔

9 جون 1967: اسرائیلی یہودی دیوارِ گریہ پر عبادت کرتے ہوئے

جنگ عظیم اول میں یہودیوں نے برطانیہ سے رابط قائم کیا اس وقت برطانیہ کے جو وزیر خارجہ تھے بالفور 1916 میں (اعلان بالفور) کے نام سے اعلان کیا سلطنت عثمہ برطانیہ فلسطین پر یہودیوں کا حق تسلیم کرتی ہے یہودی یہاں آباد ہوں اور فلسطین کو اپنا ملک بنائیں۔ اس نے وعدہ کیا جب بھی موقع ملا یہودیوں کو دوبارہ فلسطین میں آباد ہونے کا موقع دیا جائے گا۔ جنگ عظیم جب شروع ہوئی خلافت عثمانیہ ختم ہو گی مختلف علاقے مختلف ملکوں کی ملکیت میں چلے گئے، اس تقسیم میں فلسطین کا علاقہ برطانیہ کے حصے میں آیا۔

برطانیہ نے اپنا گورنر واسرائے بٹھایا اور ساتھ یہ اعلان بھی کر دیا یہودی یہاں آکر آباد ہو سکتے ہیں۔ یہ آج سے ایک صدی پہلے کی بات ہے فلسطینوں نے مذمت کی لیکن اس کا کوئی حل نہیں نکالا گیا برطانیہ نے یہودیوں کو پورے وسائل مہیا کیے 1945 ء میں برطانیہ اقوام متحدہ میں فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کی قرارداد منظور کروا کر خود فلسطین سے چلا گیا۔ جو علاقہ یہودیوں کے زیر قبضہ تھا وہ یہودیوں کو دے دیا گیا۔

اور ایک حصہ فلسطینوں کے قبضے میں رہا دوسرے حصے پر یہودیوں نے ناجائز قبضہ کر لیا اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں نے اس وقت اسرائیل کو ایک آزاد ریاست تسلیم کر لیا لیکن فلسطین کو آج تک آزاد ریاست تسلیم نہیں کیا گیا۔ یہ مسلمانوں کے ساتھ زیادتی اور بیت المقدس پر یہودیوں کے قبضے کی سازش ہے۔ مسلم ملکوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جب پاکستان بنا بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا موقف بھی وہی تھا جو دوسرے اسلامی ممالک کا اسرائیل کے بارے میں تھا۔

بانی پاکستان نے واضح کہا تھا اسرائیل کا وجود مسلمانوں کے دلوں میں خنجر گھوپنے کے مترادف ہے ہم اسے کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ اس وقت بین الاقوامی طاقتیں امریکہ، روس، یورپ وغیرہ اسرائیل کو سپوٹ کر رہی تھی اب بھی کر رہی ہیں۔ 1967 میں ایک جنگ ہوئی جس میں ایک طرف اسرائیل دوسری طرف اردن، شام اور مصر تھے اس جنگ میں اسرائیل کو مغربی طاقتوں کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی اسرائیل نے ان ملکوں کو شکست دی۔ صحرائے سینا اور شام میں گولان کی پہاڑیوں اردن کے پاس فلسطین کا یہ حصہ یروشلم اور بیت المقدس پر قبضہ کر لیا اپنی سرحدوں میں توسیع کر لی۔

بیت المقدس ابھی تک اسرائیل کے نا جائز قبضے میں ہے۔ عرب ممالک سے کہا گیا اسرائیل کو تسلیم کر لو اقوام متحدہ اسرائیل پر دباؤ ڈالے گی وہ اپنی پرانی پوزیشن میں چلا جائے گا گولام کی پہاڑی یروشلم اور بیت المقدس کو چھوڑ دے گا کم ڈائیوڈ سمجھوتا ہوا اس وقت مصر، شام اور کچھ دوسرے عرب ممالک نے اس سمجھوتے کو تسلیم کر لیا لیکن پاکستان، ایران، سعودی عرب اور کچھ ممالک اپنے سابقہ موقف پر ڈتے رہے ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے یہ ایک ناجائز ریاست ہے۔

کشمیر پر انڈیا کا ناجائز قبضہ کروانے میں بھی برطانیہ کا کردار اہم ہے تقسیم ہند کے بعد جب حدود بندی ہوئی برطانیہ نے بڑی چالاکی کے ساتھ کشمیر کے علاقے کو متنازعہ بنا دیا انڈیا کی فوجوں نے کشمیر پر ناجائز قبضہ کر لیا۔ پاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ کہتا ہے ہم کشمیر پر انڈیا کا قبضہ تسلیم نہیں کرتے جب کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی ہمارا ساتھ دے رہی ہیں۔ لیکن انڈیا کشمیر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، اسرائیلی کمپینوں کو ٹھیکے دیے جانے کی خبریں ہوں یا یہودیوں کو پاکستان آنے کی اجازت ہو پچھلے چند مہینوں سے یہ خبریں گردش کر رہی ہیں۔

اگر اسرائیل کو تسلیم کر لیتے ہیں تو ہمیں کشمیر کے موقف سے بھی پیچھے ہٹنا پڑے گا کیونکہ ہمارا کشمیر اور اسرائیل کے حوالے سے موقف ایک ہی ہے فلسطین پر یہودیوں اور کشمیر پر انڈیا نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنا موقف ایک ہی رکھیں اسرائیل اور کشمیر دونوں بہت بڑے مسئلے ہیں کیونکہ فلسطین پر اسرائیل اور کشمیر پر انڈیا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے فیصلوں کو ماننے کو تیار نہیں۔ ہم سے ایک تیر سے دو شکار کروانا چاہتے ہیں۔ دیانت داری اور سوچ سمجھ کر فیصلے کرنا ہوں گے اور اس سازش کو ناکام بنا نا ہو گا۔ امت مسلمہ کا مفاد فلسطین، کشمیریوں کے جائز حقوق اور بانی پاکستان کے فرمان کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنا ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).