ثاقب نثار متنازع اور ناکام چیف جسٹس کے طور پر ریٹائر ہوئے: علی احمد کرد


علی احمد کرد پاکستان کے ان ممتاز وکلا میں سے ایک ہیں جو لگی لپٹی رکھے بغیر صاف صاف بات کرتے ہیں۔ وہ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر ہیں اور عدلیہ بحالی تحریک میں پیش پیش رہے۔ لیکن جب تحریک کامیاب ہوگئی اور معزول جج واپس عدالت میں آکر بیٹھ گئے تو چند دن بعد علی احمد کرد نے کہا کہ عدالتوں میں فرعون بیٹھے ہیں۔ حق بات کہنا اور اس پر ڈٹ جانا کرد صاحب کا امتیاز ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ پر ان سے گفتگو کا موقع ملا، جسے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

سوال: کرد صاحب! ثاقب نثار کے دور کا خاتمہ ہوگیا۔ تجزیہ کار ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ انھوں نے سیاسی مقدمات میں متنازع فیصلے دیے، عدالت سے نکل کر اسپتالوں پر چھاپے مارے، ڈیم فنڈ بنایا اور اس کے لیے سرگرم رہے۔ اپنے عہدے کی حدود سے باہر نکلتے رہے۔ آپ کیا کہیں گے؟

علی احمد کرد: اگر ثاقب نثار صاحب اپنی ریٹائرمنٹ کے دن کو یاد رکھتے تو اچھا ہوتا۔ آدمی کو جب بات سمجھ آ جاتی ہے تو وہ خود کو اپنے فرائض منصبی تک محدود رکھتا ہے۔ سول کیسز میں ان کی مہارت اپنی جگہ پر ہے۔ اس وقت ملک کی تمام عدالتوں میں انیس لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں۔ سپریم کورٹ میں بھی ہزاروں مقدمات موجود ہیں۔ اگر وہ اپنا کام کرتے تو بہت سے مقدمات کے فیصلے ہو چکے ہوتے۔ آج لوگ جو باتیں کر رہے ہیں، انھیں باتیں کرنے کا موقع نہ ملتا۔ انھوں نے جو اقدامات کیے، جتنے دورے کیے، میں ان پر تنقید کرتا رہا ہوں۔ مجھے ایسا کہنے کا موقع نہ ملتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ثاقب نثار بہت متنازع اور ناکام چیف جسٹس کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں۔

سوال: آپ افتخار چودھری کی بحالی کی تحریک میں آگے آگے تھے۔ بحال ہونے کے بعد بلکہ پہلے بھی افتخار چوہدری نے بے شمار ازخود نوٹس لیے اور وہ بھی اپنے عہدے کے دائرے سے نکلتے رہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ افتخار چودھری کی نظیر سامنے نہ ہوتی تو ثاقب نثار بھی احتیاط کرتے؟

علی احمد کرد: دیکھیں، انسانی معاشرے اور تہذیبیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب اچھی نظیر اور اچھی روایات کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ جس نظیر یا روایت کو معاشرے نے رد کر دیا ہو، اسے لے کر جو آگے چلے گا، وہ نقصان اٹھائے گا۔ افتخار چودھری صاحب نے جتنے بھی ازخود نوٹس لیے، ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ لوگوں نے ان پر اس وقت، ان کی موجودگی میں اور ان کے بعد بھی اعتراضات کیے۔ اسی لیے افتخار چودھری صاحب کی ایک زمانے میں جو مقبولیت تھی، وہ باقی نہیں رہی۔ تو ثاقب نثار صاحب کو اچھی نظیر لے کر آگے جانا چاہیے تھا۔ پاکستان میں بڑے اچھے چیف جسٹس صاحبان گزرے ہیں۔ ثاقب نثار صاحب کو ان کی نظیر کو سامنے رکھنا چاہیے تھا۔ افتخار چودھری کو میں کامیاب چیف جسٹس نہیں سمجھتا۔ ان کی پیروی کرکے ثاقب نثار نے غلطی کی۔

سوال: بعض سیاست دانوں کا خیال ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں عدالتوں نے ازخود نوٹس اور توہین عدالت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

علی احمد کرد: ہمارے آئین کا آرٹیکل سکسٹی ٹو ون ایف یہ ہے کہ کوئی بھی عدالت اگر کسی شخص کے بارے میں فیصلہ سنا دے کہ وہ صادق اور امین نہیں ہے تو پھر وہ نااہل ہوجاتا ہے۔ آپ نے لفظ استعمال کیا ہے، ہتھیار۔ عدالتوں کا یہ کام نہیں کہ وہ ہتھیار لے کر لوگوں کے پیچھے پڑ جائیں۔ ان کے پاس ہتھیار ہو بھی تو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ شاذونادر ہی عدالتیں اس بارے میں سوچتی ہیں۔ جس وقت آرٹیکل سکسٹی ٹو ون ایف کے ہتھیار کو بقول آپ کے اور میرے، وہ استعمال کررہے تھے تو میں چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اسے استعمال نہ کریں۔ اس وقت بھی میں نے مخالفت کی تھی اور آج بھی کہتا ہوں کہ ہماری پارلیمنٹ کو یہ شق اٹھا کر باہر پھینک دینی چاہیے۔

سوال: افتخار چودھری کے زمانے سے یہ بحث چل رہی ہے کہ آئینی مقدمات کے فیصلے کے لیے سپریم کورٹ سے علاحدہ آئینی عدالت ہونی چاہیے۔ کیا آپ اس خیال کی حمایت کریں گے؟

علی احمد کرد: جس وقت وکلا کی تحریک چل رہی ہے، اور اس میں میرا بھی چھوٹا موٹا کردار تھا، اس وقت بھی یہ آپشن دیا گیا تھا۔ افتخار چودھری معطل تھے۔ حکمران انھیں بحال کرنے کو تیار تھے لیکن وہ چاہتے تھے کہ ان کے اختیارات کسی طرح کم ہو جائیں۔ یہ بات کسی ذریعے سے ہم تک پہنچائی گئی کہ آئینی عدالتوں کو علاحدہ کردیتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر اس وقت بھی اس سوچ کے خلاف تھا اور میں آج بھی ہوں۔ سپریم کورٹ بہت بڑی عدالت ہے۔ عام لوگ، غریب لوگ، مظلوم لوگ، جو اس ملک میں سرداروں، نوابوں، وڈیروں اور سرکار کے ہاتھوں مارے ہوئے لوگ ہوتے ہیں، وہ اس عدالت میں انصاف مانگنے آتے ہیں۔ تو اس کا احترام اور تقدس اور ہونا چاہیے اور اس کے پاس طاقت ہونی چاہیے۔ میں آئینی عدالتوں اور دوسری عدالتوں کی تقسیم کے حق میں نہیں ہوں۔

سوال: ہمارے ہاں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے احتساب کا طریقہ بہت دشوار ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے سوا مجھے کوئی مثال یاد نہیں کہ کسی جج کو نکالا جا سکا ہو۔ اگر کوئی جج اپنی حد سے باہر نکل جائے تو پھر کیسے اسے روکا جائے؟ اس کا کوئی حل ہونا چاہیے۔

علی احمد کرد: مبشر زیدی صاحب، میں سوچ رہا ہوں کہ اس کا جواب دوں یا نہ دوں؟ اس کا بہت اچھا جواب ہے میرے پاس۔ میری رائے ہے، بہت احترام کے ساتھ اور بڑی عاجزی کے ساتھ۔ میں ساری زندگی وکلا کی نمائندگی کرتا رہا ہوں اور وکلا تنظیموں میں بڑے عہدوں پر رہا ہوں۔ ہمیشہ سے میری سوچ رہی ہے کہ اگر بار مضبوط ہوگی اور بار کے نمائندے منتخب ہونے کے بعد پیسے کمانے کے بجائے صرف وکلا کی نمائندگی کریں گے تو کوئی ہائیکورٹ، سپریم کورٹ، کوئی چیف جسٹس اتنا طاقت ور نہیں ہوسکتا کہ آپ کو یہ سوال کرنا پڑے۔

سوال: آپ آئینی عدالتوں کے خلاف ہیں۔ لیکن آئینی عدالتیں کیوں نہیں، کہ جب فوجی عدالتیں موجود ہیں۔ حکومت نئی آئینی ترمیم کے ذریعے ان کی مدت میں اضافہ کرنے والی ہے۔ بلاشبہ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے لیکن کیا فوجی عدالتیں ہی مسئلے کا حل ہیں؟

علی احمد کرد: جس وقت پہلی بار یہ آئینی ترمیم آئی تھی اور فوجی عدالتوں کو قائم کیا گیا تھا، میرے خیال میں اس وقت میں پہلا آدمی تھا جس نے ان کی بھرپور مخالفت کی تھی۔ میں آج بھی کہتا ہوں کہ ہماری عدالتوں میں ایک سے بڑھ کر ایک نقص موجود ہے، ایک سے ایک کمی موجود ہے، کرپشن بھی ہے، ان کمپی ٹینسی بھی ہے۔ سب کچھ اپنی جگہ پر لیکن عدالتیں ہی معاشرے کو پروان چڑھاتی ہیں، تہذیب کو آگے لے جاتی ہیں۔ جب ساری دنیا نے فوجی عدالتوں کے بغیر ترقی کی ہے تو ہم بھی کرسکتے ہیں۔ ہمیں اپنی عدالتوں سے نقائص کو نکال کر انھیں آگے کی طرف لے جانا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر بار اور بینچ مل کر ایمانداری سے ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے کام کریں گے تو فوجی عدالتوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔

آج جج وکلا کو اہمیت نہیں دیتے بلکہ ان کی توہین کرتے ہیں۔ میں ذمے داری سے آپ کو بتارہا ہوں کہ اس وقت پاکستان میں ججوں اور وکیلوں کے درمیان بڑی خلیج ہے۔ اس خلیج کو دور کرنا سب سے بڑا کام ہے۔ نہیں تو یہ نظام ٹھیک نہیں ہو سکے گا۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi