عبدالستار ایدھی: بولو کوئی اور کھدمت؟


\"nasirایدھی صاحب کو لفظوں میں خراج عقیدت پیش کرنا، ان کے شایان شان نہیں! وہ واقعی شان رکھتے تھے، مگر ناقابل تصور حدتک بے نیاز تھے۔ انھیں اگر کوئی خراج پیش کیا جاسکتا ہے تو ان ہی کی طرح عمل کرکے۔ رونا دھونا، جلسے جلوس کرنا، تقریریں کرنا ان کے مسلک خدمت کے قطعی برعکس ہے۔ وہ ہمیشہ سیاہ ملیشے کے لباس میں نظر آتے۔ یہ خیال کرنا، ان سے سخت ناانصافی ہوگی کہ وہ اس رنگ کے لباس کو کوئی علامت بنانا چاہتے تھے۔ بڑی شخصیت سے وابستہ علامتیں جلد ہی مقدس بن جاتی ہیں، اور ان شخصیتوں کے پیروکار ان مقدس علامتوں کی حفاظت ہی کو اپنا دین ایمان سمجھنے لگتے ہیں۔ انھی علامتوں کے نام پہ کاروبار ہوتے ہیں، اور جنگیں لڑی جاتی ہیں۔ مقدس علامتوں کی حفاظت کے نام پر دنیا کو کس قد ر جہنم میں تبدیل کیا گیا ہے، یہ سب جانتے ہیں۔

 ایدھی کے انتقال کے بعد ان سے عقیدت کی جو غیر معمولی رو چلی ہے، خد اکرے اس عقیدت کا رخ ان کے لباس، بیس سال سے پہنے جانے والے واحد جوتے اور ان کے استعمال میں رہنے والی اشیا کی طرف نہ ہو۔ یقین ہے کچھ نئے چہرے یا پرانے چہرے نیا روپ دھار کر اس عقیدت کا سیاسی استعمال کریں گے۔ ان کا دھیان اس طرف کم ہی جائے گا کہ ایدھی صاحب کی زندگی میں سیکھنے کے لیے، بلاشبہ درجنوں باتیں ہیں، مگر شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ ’کرنے ‘ کو ’کہنے‘ پر فوقیت دیتے تھے، اور اس کا ثبوت انھوں نے نہ توتحریروں سے دیا، نہ اپنے انٹرویو سے، نہ جلسے جلوسوں سے، نہ ٹی وی کے مقبول عام پروگراموں میں جلوہ فرما ہو کر، نہ ایدھی فاﺅنڈیشن کے بڑے بڑے پوسٹر یا پمفلٹ چھاپ کر۔ انھیں اپنے عمل کا ثبوت اور جواز پیش کرنے کی ضرورت شاید ہی پیش آئی ہو۔ چوبیس گھنٹوں میں دوتین گھنٹے آرام کرنے والے، اور باقی سارا وقت عمل کرنے میں بسر کرنے والے کے پاس واقعی وقت نہیں تھا کہ وہ اس بات کو ثابت کرتا پھرے کہ وہ لاوارث لاشوں، زخمیوں، لاوارث نوزائیدہ بچوں، لاوارث لوگوں کے ممکنہ طور پر سب سے پہلے کیوں کام آتا ہے۔ ایدھی صاحب کو انسانیت کی اولین ذمہ داری کا اس قدر گہرا احساس تھا، جس کی مثال ملنا مشکل ہے، یہاں تک کے صوفیہ وعلما کے طبقے میں بھی۔ کوئی مر گیا، پہلی ذمہ داری اس کی تدفین ہے، مگر اس وقار کے ساتھ جو زندہ لوگ آخری سفر پر روانہ ہونے والے کو آخری تحفے کی صورت پیش

\"[epa02912892

کرسکتے ہیں۔ کوئی پیدا ہوگیا، جائز یا ناجائز طریقے سے، اس کو آبرومندانہ طریقے سے پرورش پہلی ذمہ داری ہے۔ کوئی نوجوان لڑکی حاملہ ہوگئی، ریپ سے یا اپنی مرضی سے، اسے اور اس کے بچے کو جینے کا حق دینا، اولین ذمہ داری ہے۔ کوئی بوڑھا بے آسرا مرد، کوئی بوڑھی زمانے کی ستائی اکیلی عورت کو چھت اور عزت کی روٹی دنیا پہلی ذمہ داری ہے۔ یہ سب دنیا کے کسی کونے میں ہو رہا ہو، وہاں ممکنہ طور پر سب سے پہلے پہنچنا اوّلین ذمہ داری ہے۔ انسانیت کی اس اوّلین ذمہ داری کو اگر کسی نے ذمہ داری کے حقیقی شعور اور گہرے سچے احساس کے ساتھ جدید تاریخ میں ادا کیا ہے تو وہ عبدالستار ایدھی ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ انھوں نے دوسروں کی بے لوث، ان تھک خدمت کی، مگر اپنی قبر پچیس برس قبل اپنے ہاتھوں کھودی ہو اپنی قبر تیار کرانے کے لیے بھی بڑے دل گردے کی ضرورت ہے اور اپنی قبر خود اپنے ہاتھوں کھودنے (محاورتاً نہیں) کے لیے زندگی وموت کی حقیقت کی پیغمبرانہ بصیرت چاہیےاور اسی معمولی لباس میں دفن کیے جانے کی وصیت کی ہو۔ انھیں شاید احساس تھا کہ صرف ان کی آنکھیں کسی کے کام آسکتی ہیں، اس لیے انھیں عطیہ کر گئے۔ ان کی آنکھیں کسی اور کے کام آئیں گی، اور وہ شخص یقینا خوش نصیب ہو گا اگر قبر میں سوال جواب ہوتے ہیں تو یقین ہے کہ فرشتوں کی موجودگی محسوس کرکے اپنے مخصوص میمن لہجے میں کہیں گے، آنکھیں تو میں عطیہ کرآیا ہوں، بولو کوئی اور کھدمت؟

ایدھی صاحب کو اپنے عمل کے جواز کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئی۔ ہر قسم کے جواز کی لغت اور دلائل سماجی ہوتے ہیں۔ یعنی زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے قابل فہم ہوں، اور انھیں مطمئن کرسکیں۔ دنیا کا ہرسماج، ہر اس شخص کے عمل پر سوال اٹھاتا ہے، اور جواب طلب کرتا ہے جو نہایت واضح، نمایاں، اور اثر آفریں ہو۔ ایدھی صاحب پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔ ابتدا میں انھوں نے کچھ جواب دیے، اور خود کو نظریاتی آدمی کہا، اور اپنے نظریے کو انسانیت سے تعبیر کیا۔ اس کی مدد سے مذہب کی یہ تعبیر کی کہ صرف عبادات اور رسمیات کا نام مذہب نہیں؛ دکھی انسانیت کی خدمت اصل مذہب ہے۔ پاکستان جیسے ’مذہبی نظریاتی‘ ملک میں مذہب کی کوئی ایسی تعبیر، جس میں شریعت کے نفاذ کی گنجائش نہ ہو، فساد کا باعث ہو سکتی ہے۔ ایدھی صاحب کے نوزائیدہ بچوں کے لیے جھولے رکھنے کو بعض علما نے ناپسند کیا، اور اسے ’حرام ‘ کے بچوں کی پیدائش کی حوصلہ افزائی قراردیا، نیز اس کا حل شریعت کے نفاذ میں دیکھا۔ اصل یہ ہے کہ ایدھی صاحب پاکستان میں ایک حقیقی متبادل تھے۔ کوئی بچہ کیسے پیدا ہوا؟ نیم قبائلی معاشرتی اقدار، مذہبی رسومات اور شریعت کے نفاذ کے لیے دن رات \"Edhi3\"ایک کیے ہوئے معاشرے کا پہلا ردّ عمل یہ ہے کہ یہ گناہ ہے، اور گناہ گاروں کو قرار واقعی سزادی جائے۔ ایدھی صاحب کوئی دعویٰ کیے بغیر متبادل پیش کرتے تھے۔ بچے کو گود لے لیا جاتا، اور گناہ گار عورت کوروٹی، کپڑا، مکان اور عزت دی جاتی (جس کے نعرے پر ایک سیاسی جماعت پچاس سالوں سے ووٹ حاصل کر رہی ہے)۔ چوںکہ ایدھی صاحب نے ایک حقیقی متبادل پیش کیا، یعنی باتوں سے گریز کیا، انسانیت کو مزید نقصان سے بچانے کا چارہ کیا، ہر زندہ شخص کی زندگی کی حفاظت اور اس کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کو یقینی بنایا، اور سب سے بڑھ کراس بحث میں نہیں پڑے کہ کسی المناک واقعے کا ذمہ دار کون ہے؛ واضح رہے کہ ذمہ داروں کا تعین ایک بات ہے، اور بحث دوسری بات ہے، اور اکثر یہ بحث سیاسی مضمرات کی حامل ہوتی ہے۔ جو ہو چکا ہے، اس کے بعد انسانیت کی ذمہ داری کیا ہے، اسے ایدھی صاحب نے پورا کیا۔ چوں کہ یہ حقیقی متبادل تھا، اس لیے پورے پاکستانی سماج میں اسے پذیرائی ملی۔ ایدھی صاحب کی زندگی ایک زبردست استعارہ ہے، اس بات کا کہ ایک بڑی جنگ بغیر لفظوں کے، صرف صحیح عمل سے جیتی جا سکتی ہے، اور ان لوگوں سے بھی جیتی جا سکتی ہے جن کے پاس مقدس نظریے کی طاقت کے ساتھ ساتھ، باقاعدہ ہتھیار بھی ہوتے ہیں۔ کراچی جیسے شہر میں ایدھی صاحب کی طبعی موت، ایک معمولی واقعہ نہیں ہے! اور کراچی جیسے مصیبت زدہ شہرہی میں ایدھی صاحب اور ان کی فاﺅنڈیشن کی ایمبولینس کو راستہ صاف مل جایا کرتا تھا، اورانھیں دیکھ کر مخالف گروہ فائرنگ روک دیا کرتے تھے۔ اس ملک میں بڑے بڑے جبہ و عمامہ والے گزرے ہیں، مگریہ عزت، یہ عظمت کسی اور کو حاصل نہیں ہوئی۔ ایدھی صاحب اپنے عمل میں راشد کی نظم ’زندگی سے ڈرتے ہو‘ کے ان مصرعوں کی مانند تھے:

زندگی سے ڈرتے ہو؟\"Edhi-PPI-640x480\"

زندگی تو تم بھی ہوزندگی تو ہم بھی ہیں!

زندگی سے ڈرتے ہو؟

آدمی سے ڈرتے ہو؟

آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں

ہر طرح کے خطرے میں اورخطرے کی حقیقی فضا میں پہنچ کر زخمی، مردہ، لاوارث لوگوں یعنی اپنے جیسے آدمیوں کے کام آنا، اس یقین کے بغیر ممکن نہیں کہ ’ہم سب آدمی ہیں، اورآدمیت سے بڑھ کر دنیا کاکوئی مذہب نہیں‘۔ مذہب کی خاطر جان لینا اور جان دینا آسان ہے، مگر مذہب کی حقیقی روح کے تحت جینا اور اسے فخر نہ بنانا آسان نہیں۔

برے سے برے شخص میں بھی کسی وقت ایک بڑے نیک عمل کی فطری صلاحیت ہے (اردو فکشن میں اس موضوع پر منٹو نے سب سے زیادہ لکھا)، لیکن کوئی شخص گیارہ سال کی عمر سے اپنے اٹھاسیویں برس تک مسلسل نیک عمل کرتا رہے، اس کی صلاحیت آدمی کو پیدا کرنا پڑتی ہے، اپنی فطرت کی بہت سی چیزوں پر قابو پا کر، یا ان کی قلب ماہیت کرکے۔ یوں بھی ایک عمل خیر ایک ڈھلوان پرمسلسل اوپر چڑھنے کا عمل ہے، جو ایک لمحے کو اپنا قدم روکتا ہے اس کا نیچے گرنا یقینی ہے۔ اکثر نیک لوگ، اچانک کوئی برا کام کرتے ہیں تو ا س کا سبب یہی ہے؛’جو دم غافل سو دم کافر‘کا مطلب بھی یہی ہے۔ ایدھی صاحب نے بلاشبہ اپنے اندر مسلسل عمل خیر کی دیوتائی صلاحیت پیدا کی، مگر یہ ایک معما ہے کہ کیسے؟ ان کے کسی مرشد، کسی خضر، کسی راہنما کا ذکر نہیں ملتا۔ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے گیارہ سال کی عمر میں اپنے والدہ کو ذیابیطس کا مریض دیکھا توان کی خدمت کا جذبہ پیدا ہوا۔ یہی جذبہ بعد میں، پہلے اپنے خاندان، پھر پوری انسانیت کی خدمت کے جذبے میں بدل گیا۔ اپنی ماﺅں، اپنے عزیروں اور دوستوں کے سلسلے میں اکثر لوگ یہ جذبہ محسوس کرتے ہیں، لیکن جلد ہی اس جذبے کی موت کا تجربہ بھی کرتے ہیں۔ ایک معروف مثال عمران خان کی ہے، جنھوں نے اپنی ماں کو کینسر کے سبب موت کے\"edhi5\" منھ میں جاتے دیکھا تو سب ماﺅں، اور سب انسانوں کے لیے کینسر کی علاج گاہ بنانے کا عزم کیا، جس میں کامیاب رہے، لیکن ماں کی تکلیف سے، دوسروں کی تکلیف کو محسوس کرنے کا جذبہ زیادہ دیر باقی نہ رہ سکا۔ ایدھی صاحب اور عمران خان میں فرق یہ ہے کہ آخرالذکر نے اپنے جذبے کے مردہ ہونے کا تجربہ کیا، اور خدمت کے اوّلین جذبے پر سیاست کرنے کا فیصلہ کیا اس سے زیادہ خدمت کے جذبے کی توہین نہیں ہوسکتی کہ کوئی شخص جگہ جگہ اپنی خدمت کا ذکر کرے، اور لوگوں سے اپنی پارسائی کا خراج چاہے لیکن ایدھی صاحب نے نہ تو اپنی ماں کے نام پر کوئی یادگاری ہسپتال بنایا، نہ کہیں اور یہ نام استعمال کیا، (اپنی بیوی کا نام ضرور اپنی فاﺅنڈیشن کے لیے لکھا، لیکن وہ بھی اپنے نام کے استعمال سے بچنے کی خاطر)۔ اصل یہ ہے کہ ایدھی صاحب نے پہلی مرتبہ اپنے اندر ہم دلی(Empathy)کو محسوس کیا۔ ہمدردی جلد رخصت ہوجاتی ہے، مگر ہم دلی تادیر باقی رہتی ہے۔ ایدھی صاحب نے کیسے ہم دلی کے جذبے کو ستتر برس تک باقی رکھا؟ اس کا سیدھا سادہ جواب ہے کہ مسلسل اس میں اضافہ کرکے۔ وہ سب جذبے مردہ ہوجاتے ہیں، جن کی نشوونما نہیں ہوتی، یعنی جن میں مسلسل گہرائی اور وسعت نہیں پیدا ہوتی رہتی۔ ایدھی صاحب ایک ایسے دل کے مالک تھے، جس میں ایک ایسی وسعت پیدا ہو چلی تھی جس کا تصور ہم آسمان کو دیکھ کر کرتے ہیں، اور ایک ایسی گہرائی تھی جس کا تجربہ ہم اپنی عزیز ترین ہستی کی موت کے اوّلین لمحے میں کرتے ہیں۔ ایدھی صاحب نے دیوتائی نوعیت کے کام کیے، مگرزندگی عام آدمی کی طرح بسر کی۔ ان کی ہم دلی کا جذبہ ماوراے انسانی تھا، مگر ان کا جینا لاوارثوں، یتیموں، غریبوں، دھتکارے ہوﺅں کے ساتھ تھا، اور مرنا ایک یکسر عام آدمی کی مانند، عام سرکاری ہسپتال میں۔ ان میں وزیر اعظم بننے کی پیش کش سے لے بیرون ملک علاج کروانے کی پیش کش کو ٹھکرانے کی دیوتائی جرات تھی، لیکن وہ عام انسانوں میں عام انسانوں کی مانند تھے۔ وہ اپنے عمل، اپنے عمل پر غیر متزلزل اعتقاد کے سلسلے میں دیوتا سمان تھے، مگر اپنے روزمرہ میں یکسر معمولی وعام شخص۔ تاریخ میں لاکھوں لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کرنے والوں کی بے شمار مثالیں ہیں، مگر لاکھوں لوگوں کی کئی دہائیوں تک، اپنی آخری سانس تک، اور ہم دلی کے لافانی جذبے کے ساتھ خدمت کرنے کی مٹھی بھر مثالوں میں ممتاز مثال عبدالستار ایدھی ہیں۔ پاکستانی ان پر ہمیشہ فخر کرتے رہیں گے، خدا کرے ان کی طرح بننے کی کوشش بھی کریں!

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments