صیہونیوں کا خدا ”دجال“ لاہور میں؟


مال روڈ پر واقع لاہور میوزیم میں جیسے ہی سولہ فٹ اونچا اور آٹھ فٹ چوڑا مجسمہ نصب کیا گیا تو نیا پنڈورا بکس کھل گیا۔

تنازع کھڑا کرنے اور اس سے منسلک اپنی ذات کے لئے قدآوری کشید کرنے کے شوقین میدان میں آگئے۔ ایک نے تو عدالت سے بھی رجوع کرلیا جس پر فریقین کو نوٹس جاری کردیے گئے۔ صورتحال یہ ہے کہ دو قسم کے معاشرتی کردار آمنے سامنے آگئے ہیں۔ ایک طرف وہ نام نہاد اصلاح کار ہیں جوتنقید برائے تنقید پر محض یقین رکھتے ہیں اور عملی سطح پر صفر بٹا صفر سے زیادہ نہیں کر پاتے۔ دوسری جانب فن کے وہ دلدادہ ہیں جو فن کی حقیقت اور پس منظر کو زیر بحث لاکر مفاد عامہ کے لئے پیغام چھوڑتے ہیں۔ چند روز میں ہزراوں افراد نے اس مجسمہ کودیکھا اور اپنی اپنی عینک سے دیکھی تصویر کے مطابق اس پر جملے جڑ دیے۔

مذہب کے ٹھیکیداروں نے قرار دیا صیہونیوں کا خدا ”دجال“ لاہور میں آگیا ہے۔ کسی نے اسے عالمی صیہونی، فری میسن اور الیومیناٹی لوگوں کا خدا ٹھہرا دیا۔ کسی نے کہا یہ بفومیٹ ہے اور صیہونیوں کے نزدیک ان کا آنے والا مسیحا یعنی ”دجال“ ایسا ہی ہوگا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اتنی بڑے سائز کے مجسمے کو نصب کرنے کا مقصد یہی ہے کہ مسلمانوں کو صیہونیت سے آشنا کروایا جائے۔ یہ ایک میٹھا زہر ہے، پہلے گیمز، فلموں اور کارٹونز کے ذریعے مسلمانوں کی نئی نسل کو صیہونیت سے آشنا کیا گیا اور اب حقیقی زندگی میں عین سب کے سامنے یہ مجسمہ میوزیم میں رکھ دیا گیا۔

ایک ناقد کا کہنا ہے کہ مجھے یقین ہے اسے بنانے اور نصب کروانے میں ضرور صیہونیوں کے لیے کام کرنے والی کوئی این جی او یا کوئی سفارت خانہ ملوث ہوگا۔ اب اسے دیکھ کر مسلمانوں کے بچے سیلفیاں لیں گے، اسے ایک کارٹون سمجھیں گے یا اس کے مطلق جاننے کی کوشش کریں گے کہ یہ کیا چیز ہے اور پھر گوگل یوٹیوب پر پہلے سے موجود صیہونی مواد اور جعلی اسلامی قادیانی مواد کے شکنجے میں آکرصیہونیت کے قریب ہوتے جائیں گے۔

ناقدین کے حضور عرض ہے کہ ان کے ذہن میں جو پل رہا ہے وہ سر آنکھوں پر لیکن دین محمدی تو تحقیق بارے بڑا زور دیتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پہلے اس مجسمے کی بابت تخلیق کار سے بات کی جاتی اور نصب کیے جانے کا سبب معلوم کیا جاتا نہ کہ لاٹھی لے کر اس جانب دوڑ پڑیں اور مطالبہ کریں اسے ہٹا ؤ اسے ہٹاؤ۔ اندیشہ تو یہ بھی ہے کہ وہ تکفیر یت کے جذبہ سے مغلوب ہوکر چوبیس سالہ نوجوان خالق کو کافر ہی قرار نہ دیدیں۔ پنجاب یونیورسٹی شعبہ فائن آرٹس کے ڈگری یافتہ ارتباط الحسن کا کہنا ہے کہ حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ مجسمہ بفومیٹ ہرگز نہیں ہے۔ حقیقی بفومیٹ کا جسم انسان جیسا لیکن سر بکرے کی طرح تھا۔ لوگوں نے اسے خدا سمجھ کر اس کی پوجا کرنا شروع کی اور یوں زمانے بیتے اور صیہونیت کی بانی تنطیم فری میسن نے اسے اپنا خدا بنا کر پیش کیا۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ عجیب الخلقت عالم اسلام کے مرکز پاکستان کے شہر لاہور کے عالمی شہرت یافتہ میوزیم میں کیوں نصب کیا گیا؟ اس ضمن میں میوزیم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی شعبہ فائن آرٹس کے طلبا و طالبات کے تھیسز کی نمائش کی جانی تھی جس کے لئے تما م آرٹیکلز بھجوائے گئے تھے اورجگہ نہ ہونے کے باعث موجودہ مجسمے کو عارضی طور پر رکھا گیا تھا تاہم حفظ ماتقدم کے طور پر اسے ہٹا دیا گیا ہے۔

مجسمے کے خالق ارتباط الحسن کا کہنا ہے کہ ہم میں سے کسی نے بھی شیطان کو نہیں دیکھا یعنی کوئی یہ نہیں بتا سکتا ہے کہ شیطان کیسا ہوتا ہے وہ کیسا دکھائی دیتا ہے۔ موجودہ مجسمہ انسانیت اور حیوانی جذبات کی عکاسی پر مشتمل ہائیبرڈ تھیسس ہے۔ جانور اور انسان کے مابین فرق بڑا واضح ہے۔ جرمن ماہر فزکس کارسٹن بریش کے مطابق انسان حیوانوں کی سلطنت سے براہ راست وارد ہوا ہے۔ دونوں کے مابین ظاہری فرق صرف عزت نفس برقرار رکھنے کی صلاحیت کا موجود ہونا ہے۔

ذات کی عکاسی کے لئے انسان متعدد راہوں کا راہی ہوتا ہے۔ کبھی وہ تحلیل نفسی کی جانب بڑھتا ہے تو کبھی سطح انسانی سے گر جاتا ہے۔ جب وہ ایسا کرتا ہے تب کوچہ درندگی کی جانب اس کا سفر شروع ہوجاتاہے اور رفتہ رفتہ اس کوچہ میں انسان اپنی پہچان کھونا شروع کردیتا ہے۔ مجسمہ کے چہرے کے بگڑے تاثرات، ٹوٹا ہوا سینگ اور ٹوٹے ناخن واضح کرتے ہیں کہ جب انسان اپنی اصلاح کرنا چھوڑ دیتا ہے تو منفیت پسندی اس پر اس قدر حاوی ہونا شروع ہوجاتی ہے کہ پہلے اس کی اندرونی توڑ پھوڑ شروع ہو تی ہے اور بعد ازاں بیرونی۔

مجسمہ کی شکل میں کیا جانے والا آرٹ ورک انسانیت کی نفی کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ پروفیسرطارق شفیع نے کہا اس مجسمے کو کسی صورت ہٹایا نہیں جانا چاہیے تھا۔ دراصل یہ نیشنل کالج آف آرٹس اور پنجاب یونیورسٹی فائن آرٹس کے مابین پائی جانے والی کشمکش کا شاخساخہ ہے۔ اگر یہ طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے بچوں کا فن پارہ ہوتا تو اب تک سارے بڑے ٹی وی چینل یہاں ہوتے، نیوز پیکجز بنتے اور داد و تحسین کے ڈونگرے برسا کر آرٹسٹ کو بڑے انعام کا حقدار قرار دیتے۔

مجسمے پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اس میں آرٹسٹ نے بھرپور محنت کرکے غیر روایتی فن کا اظہار کیا ہے۔ یہ انسانوں کی اندروانی حیوانیت اور شیطانیت کی بالکل درست عکاسی کرنے والافن پارہ ہے۔ اس پر تنقید کرنے اور ہٹانے کا مطلب ہے کہ ہم انسان اپنی اندرونی برائیوں کو دیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں یعنی نہ اپنی برائیاں دیکھیں گے اور نہ انھیں ختم کرکے معاشرہ کو فلاح کی طرف راغب کرنے کا کوئی عمل کریں گے۔ لگتا ہے کہ جو اسے صیہونیوں کا خدا ”دجال“ قرار دے رہے ہیں انھیں آئینہ دکھایا تو برا مان گئے ہیں۔ جتنے دن یہ انوکھا مجسمہ یہاں موجود رہا سینکڑوں طلباء و طالبات اور غیر ملکی افراد نے اس کے ساتھ سیلفیاں بنائیں اور خوشی کا اظہار کیا۔ٍ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).