آئیے دوستووسکی اور اینا سے ملیں


میری طرح پاکستانیوں کی ایک اکثریت آج کل ملکی حالات کی وجہ سے ڈپریشن میں ہے۔ سوچا کہیں چلتے ہیں۔ کراچی سے فون پر میرے ویزا اور ٹکٹ ایجنٹ کی آواز حیرت وتعجب میں ڈوبی سنائی دیتی ہے۔ سینٹ پیٹرزبرگ میں اتنے دن؟ کوئی آپ کا ہے وہاں؟ وہاں میرا گُرو رہتا ہے۔ یہ جملہ میرے ہونٹوں نے نہیں میرے دل نے کہا تھا۔ ہم لکھنے والوں کے جو بندھن اجنبی سرزمینوں کے کاغذ، قلم اور فن سے رشتہ جوڑنے والوں سے ہوتے ہیں وہ عام لوگوں کی سمجھ میں کب آتے ہیں؟

بھلا دوستو وسکی سے بڑا کون اپنا ہوسکتا ہے۔ تو میں زاروں اور انقلابیوں کے محبوب شہر میں ہوں۔ پرانی یم سکایا سٹریٹ جو اب دوستو وسکی کہلاتی ہے۔ یہیں کونے پر وہ چار منزلہ عمارت کھڑی ہے جس کے ایک اپارٹمنٹ میں اکتوبر 1878 ء میں وہ میرا محبوب لکھاری اپنی فیملی کے ساتھ شفٹ ہوا اور یہی وہ گھر تھا جہاں 1846 ء میں بھی اس نے کچھ وقت کرایہ دار کی حیثیت سے گزارا تھا۔ گویا یہ گھر اس کی تخلیقی زندگی کی ابتداء اور انتہا تھا۔

مین دروازہ بیسمنٹ کی چند سیڑھیاں اتر کر تھا۔ پہلے پوڈے پر قدم دھرنے سے قبل میرا جی چند لمحوں کے لئے چبوترے پر بیٹھ جانے کو چاہا۔ میں کچھ جذباتی ہو رہی تھی۔ اور پھر میں بھاری بھرکم چوبی دروازے کو د ہکا دے کر فیدوردوستو وسکی Fydor Mikhail Dostovsky کے گھر میں داخل ہوتی ہوں۔ بڑا کمرہ سامنے آتا ہے۔ یہ ہال کمرہ تھا جس میں رکھے ٹی وی کی سکرین پر اس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتی ڈاکو مینٹری چل رہی تھی۔

فلم ختم ہونے کے بعد بھی میں ویسے ہی بیٹھی تھی۔ بند کھڑکیوں کے شیشوں سے باہر دیکھتی اور یہ سوچتی ہوئی کہ اس گھر میں اس کا دوبارہ آنا کس قدر شدید جذباتی صدمے کا نتیجہ تھا۔ میرے سامنے اس کی بیوی ”اینا“ ”Anna“ کی وہ تحریر تھی جس میں ممتا کا وہ دُکھ جھلکتا تھا کہ جب اُن کا سب سے چھوٹا بیٹا لائیو شا Lyosha فوت ہوا۔ اُسے مرگی کی بیماری اپنے باپ سے ورثے میں ملی تھی۔ دونوں میاں بیوں کو وہ گھر جس کے چپّے چپّے پر ان کے لاڈلے بیٹے کی یادیں بکھری ہوئی تھیں کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا۔

بیٹے کے اِس دُکھ نے ا نہیں ایک نئے تجربے سے روشناس کیا۔ یہ روحانی تجربہ اور قلبی طمانیت اُس کے ناول The Brothers Karamazov میں نمایاں ہوئی۔ چھ کمروں کے اپارٹمنٹ میں یہی وہ ہال تھاجس کا ذکر اینا نے بہت تفصیل سے کیا تھا۔ انٹرنس ہال میں اس کی چھتریاں، ہیٹ اور صندوق دیکھتے ہوئے نرسری میں داخلہ۔ جب یہ خاندان یہاں شفٹ ہوا، اس وقت لیوبو Liubov بیٹی نو سال اور بیٹا فیودور سات سال کا تھا۔ کمرہ ایک خوبصورت گڑیا، راکنگ ہارس، چند کُرسیوں، بچوں کی رائٹنگ ٹیبل اورمیز پر رکھے بیٹے کی طرف سے باپ کو لکھے ہوئے لفافے سے سجا ہوا تھا۔

دوستو وسکی اپنے بچوں سے کس قدر پیار کرتا تھا اور ان کے بارے میں کتنا فکر مند رہتا تھا۔ اس کا اظہار اُس تحریر سے ہوتاہے جو ”اینا“ نے اپنی یادداشتوں میں لکھی۔ اگر وہ اپنے علاج یا کاروباری معاملات کے سلسلے میں ملک سے باہر ہوتا تو ”اینا“ کو ملنے والے خطوط اس کی اور بچوں کی محبت سے بھرپور ہوتے۔ وہ اپنے بچوں کو کم عُمری سے ہی رُوسی اور یورپی ادب پڑھانے کا متمنی تھا۔ گوگول، پُشکن، ڈکنز Dickens اوروکٹرہیوگو سے تو بچے چھوٹی عمر میں ہی مانوس ہو گئے تھے۔

وہ اکثر بچوں کو پاس بٹھا کر بائبل کو اُونچے اُونچے پڑھتا۔ ایک بار بیٹے کی شکایت پر اس نے مجھے لکھا۔ ”اینا تم فیودور کے باہر جانے اور لڑکوں کے ساتھ کھیلنے پر پریشان ہوتی ہو۔ دیکھو وہ بچپنے سے بلوغت میں داخل ہو رہا ہے۔ اس کی شخصیت کے بارے میں بہت سی گہری باتیں میرے مشاہدے میں آئی ہیں۔ گھبراؤ نہیں شاید تمہیں اس کا احساس نہ ہو کہ میں یہاں اس کے متعلق کتنا فکر مند رہتا ہوں۔ ہمیں ایک طویل مدت تک اس کے ہاتھوں میں کتابیں دے کر اسے پڑھانا ہے۔

“ اور یقیناً یہ اسی کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ اس کی بیٹی لیو بو نے بہت سی کتابیں جن میں ”Sick Girl“ وویمن لائر اور ”دوستو وسکی اپنی بیٹی کی نظر میں“ بہت مشہور ہوئیں۔ نرسری سے ہی میں اینا کے کمرے میں داخل ہو گئی تھی۔ اینا جریجور ینا Anna Grigorrienaکا کمرہ سادگی کا نمونہ تھا۔ کھڑکی کے پاس کونے میں رکھی رائٹنگ ٹیبل، ایک الماری، صوفہ نما کُرسی میز۔ میں کرسی پر بیٹھ گئی۔ یقیناً میں وہاں بیٹھ کر کچھ دیر کے لئے اس عورت کی قُربت کی مہک محسوس کرنا چاہتی تھی جو صرف بیس سال کی عمر میں اپنے سے دوگنی عمر کے شخص کی زندگی میں ایک ایسے وقت داخل ہوئی جب وہ مصائب کے ہاتھوں حد درجہ پریشا ن تھا۔

دوستو وسکی کے لئے 1854 ء کا سال بہت پُر آشوب تھا۔ اس کی بیوی ماریا بھائی میخائل اور گہرا دوست نامور محقق اور شاعر اپولون Apollonجو اس کے ذاتی اخبار ”دی ٹائم“ اور ”دی آپوچThe Apoch“ میں اس کا معاون تھا یکے بعد دیگرے اسے تنہا چھوڑ گئے۔ انہی دنوں اس نے ایک جگہ لکھا۔ ”میری زندگی ٹوٹ کر بکھر گئی ہے۔ “ اپنے بھائی کے قرضے اُتارنے کے لئے وہ کمیشن پر لکھنے کے لئے مجبور ہوا۔ وقت کی ایسی ہی کڑی گھڑیوں میں اسے ایک ایسا ناول لکھنے کی پیشکش ہوئی جس کی مدت تکمیل صرف ایک ماہ تھی۔

معاہدے کی رُو سے ناکامی کی صورت میں وہ مستقبل میں اپنے کام کی رائلٹی سے محروم ہوجاتا۔ ”تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ “ اُ س نے اپنے دوست سے مشورہ کیا۔ ” ایک سٹینو گرافر رکھو۔ “ دوست نے حل بتایا۔ تب چار اکتوبر 1866 ء کی ایک اَبر آلود دوپہر کو کتابی چہرے پر سجے ستواں ناک اور خوبصورت آنکھوں والی دلکش لڑکی جس کے براؤن فراک کے گلے اور آستینوں پر لگی دیدہ زیب لیسیں لہراتی تھیں اس کے گھر میں سٹینو گرافر کی حیثیت سے داخل ہوئی اور ٹائپ رائٹر پر بیٹھی۔

”The Gambler“ چھبیس دنوں میں مکمل ہوگئی۔ کام کے اختتام پر اُسے احساس ہوا کہ وہ اس مہربان اور ہمدرد لڑکی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ”میں اُس سے کیسے بات کروں؟ “ اُس کے باریک بھینچے ہوئے ہونٹوں سے تذبذب میں ڈوبا ہوا یہ سوال اُبھرا جو دل کی سرگوشی میں اپنے آپ سے تھا۔ وہ ردّ کیے جانے سے ڈرتا تھا۔ پھر اُس کا عندیہ لینے کے لئے اُس نے فرضی ناول کا پلاٹ گھڑا۔ ایک چوالیس ( 44 ) سالہ مرد جو مریض بھی ہے کا بیس ( 20 ) سال کی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہونا اور اینا سے یہ پوچھنا کہ ذرا سوچو تو کیا اُمنگوں سے بھری ہوئی اُس نوجوان لڑکی کے لئے ممکن ہے کہ وہ ایسے مرد کی محبت کا جواب محبت سے دے؟

”کیوں نہیں۔ “ اینا نے نگاہیں اُٹھائیں اور اُسے دیکھا۔ اُس کی کُشادہ پیشانی پر تفکّر بھری لکیریں تھیں۔ ”محبت تو اِن سب باتوں سے بالا ہوتی ہے۔ “ بس تو جیسے سُوکھے دھانوں میں پانی پڑ جائے۔ وہ بھی کھِل اُٹھا اور اپنا آپ کھول کر سامنے رکھ دیا۔ ”اینامیں جانتا ہوں میری عمر کا ایک مرد تم جیسی نوجوان لڑکی کے لئے قطعی موزوں نہیں پرپتہ نہیں میرا دل کیوں کہتا ہے کہ تم مجھ جیسے بکھرے ہوئے انسان کو سمیٹ لوگی۔

مجھے پیار دو گی کہ تمہیں پیار دینا آتا ہے۔ “ اور اینا نے اُس کے چہرے کو دیکھا جو اپنی چمکتی بھُوری آنکھوں میں آرزوؤں کا ایک جہاں سمیٹے اُسے دیکھتا تھا۔ تب اُس نے خود سے کہا کہ اگر وہ نفی میں جواب دیتی ہے تو یہ اُس کی خودداری اُس کے پندار اور اُس کی عظمت کے لئے کتنا بڑا دھچکا ہوگا۔ ”نہیں۔ میں اِسے افسرد ہ اور ملُول نہیں دیکھ سکتی۔ یہ انسان مجھے بے حد عزیز ہو چکا ہے۔ “ بیا ہ کا دن پندرہ فروری طے ہوا۔

اور رسم کی ادائیگی کے لئے ٹرنٹی کھیتڈرل کا نا م تجویز کیا گیا۔ یہ سب تو ہوگیا۔ پر کچھ گھمبیر سے مسائل ابھی بھی اُس کے سامنے سر اُٹھائے کھڑے تھے۔ ان میں سر فہرست اُس کا ویڈنگ ڈریس تھا۔ یہ کیسا ہو؟ اور اُس کی خریداری کہاں سے کی جائے؟ دوستو وسکی کے لئے تو پیسے کی فراہمی بھی مسئلہ تھی۔ سمجھدار ذہین لڑکی نے اُن بہت سارے سوالوں کہ جنہو ں نے اُسے پریشان کر رکھاتھاکا جواب دے کراُس کے تفکّرات کو تحلیل کر دیا۔

”بھئی آخر میں سلائی کڑھائی کی اتنی ماہر ہوں۔ اپنا عُروسی جوڑا خو دڈیزائن کروں گی اور اُسے سلمہ ستارے سے خود ہی سجا لوں گی۔ تم کوئی چنتا مت کرو۔ رہا کپڑا تو وہ میرے پاس ہے۔ “ شادی ہوئی اور مصائب کا آغاز بھی ہوگیا۔ ابھی استقبالیہ دعوت تھی۔ جب نئی نویلی دُلہن کو دوُلہا سنبھالنا پڑاکہ دوستووسکی نے شمپین ضرورت سے زیادہ پی لی۔ مرگی جس کا وہ پرانا مریض تھا، کا دورہ پڑ گیا۔ گھنٹوں وہ درد سے بے حال رہا اور دُلہن اُسے اپنی بانہوں میں اور کبھی اُس کا سر اپنی گود میں رکھے اُسے سنبھالتی رہی۔

پہلے ہی دن سے اُسے اپنی بانہوں میں سمیٹنے اور اُس کے دُکھ کو بانٹنے کا یہ کام اُسے ساری زندگی کرنا پڑا۔ صحت کا مسئلہ تو ایک طرف۔ اس کے ساتھ معاشی مصائب بھی خون چُوسنے والی جونکوں کی طرح چمٹے ہوئے تھے۔ قرض خواہوں کی خوفناک دھمکیاں، اُن کا آئے دن تنگ کرنا، اُس کی جائیداد ہتھیانے کی شازشیں، بیس ( 20 ) سالہ لڑکی اُن سب کے سامنے تن کر کھڑی ہو گئی۔ اُس نے اپنی ذاتی چیزیں بیچیں اور کچھ سالوں کے لئے شوہر کو اُن کے چُنگل سے نکال کر باہر لے گئی۔

بیرون ملک یہ زندگی مُشکلات اور مصائب سے بھر ی ہوئی تھی۔ پیسے کی تنگی، مشرقی یورپ میں خانہ بدوشوں جیسی زندگی، بسا اوقات کمرے کا کرایہ ادانہ کر سکنے پر لینڈ لارڈ کی صلواتیں، دوستو وسکی کی خراب صحت، اکثر اُس کا جُوا کھیلنا اور سب کچھ ہار جانا۔ ان کے پہلے بچے صوفیہ کی سوئیزرلینڈ میں پیدائش اور تین ماہ بعد اس کا مر جانا۔ سب وہ کڑی آزمائشیں تھیں جنہیں اگر اینا نے حوصلے اور محبت کے بل پر سہا تو وہیں اس نے ایڈیٹ تخلیق کی۔

اس وقت میرے سارے جذبے اُس عورت کو خراج تحسین پیش کرتے تھے جس نے ساری زندگی کرائے کے گھروں میں گزاری۔ جس نے کسی مہربان اور مشفق ماں کی طرح اُ س پر اپنی محبتّوں کی بارش کی۔ جس نے اس کے مرنے کے بعد اپنے بقیہ سار ے سال اس کے ادُھورے کاموں کو مکمل کرنے اور اپنی یادداشتوں کو مرتب کرنے میں گزار دیے۔ خاندان رات کے کھانے پر ضرور اکٹھا ہوتا۔ اکثر عزیز دوست اور رشتہ دار بھی شامل ہوتے۔ اینا کو اپنے شوہر کا گھر واپسی پر رات کے کھانے کے لئے کچھ نہ کچھ لانا بہت پسند تھا۔

پر اُسے آئے دن دوستو وسکی کا بچوں کو ٹریٹ دے دے کر خراب کرنے پر بھی گلہ رہتا تھا۔ چائے اور اُس کا اہتمام دوستو وسکی کی زندگی میں بہت اہم تھا۔ چمکتے پیتل کے سماوار کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے میرے سامنے اینا کی تحریر تھی۔ اچھی چائے اس کی کمزوری تھی۔ سونے سے قبل میں سماوار کو ڈائننگ روم میں ضرور چیک کرتی۔ چائے بنانے کا اہتمام خصوصی ہوتا۔ سب سے پہلے وہ اُبلتے پانی سے کتیلی کو کھنگالتا، اس کا چمچ مخصوص تھا جسے بچے پاپا کا چمچ کہتے تھے۔

اس کی بیٹی لیوبو کا کہنا تھا کہ پاپا ہمیشہ چائے کے رنگ کو دیکھتے اور خوش ہوتے۔ ”ہائے۔ “ میں نے سرشاری کے سُرور آگیں احساس کے زیر خود سے کہا۔ چلو اور کچھ نہ سہی پر یہ قدر تو مشترک ٹھہری کہ زندگی میں اچھی چائے کے سوا کوئی دوسرا شوق نہیں رہا۔ گلاس ہاتھ میں تھامے وہ سٹڈی روم میں آتا اور لکھنے میں محو ہو جاتا۔ چائے میں چینی کی ہمیشہ دو کیوبز ہی استعمال ہوتیں۔ چائے سے اس کی یہ محبت اس کے ناولوں کے اکثرکرداروں میں جھلکتی۔

”The Devils“ کے کردار اِسے زیادہ نمایاں کرتے ہیں۔ اس گھر میں سب سے اہم تاریخ ساز جگہ اُس کا سٹڈی روم تھا۔ نشست گاہ سے ملحقہ جو اس کی خوابگاہ بھی تھی۔ سٹڈی روم میں کچھ وقت گزارنے کی ضرورت تھی اور وہ میں نے گزارا۔ کمرے کی کھڑکیاں باہر Kuznechny Laneپر کھُلتی تھی۔ یہی وہ کمرہ تھا اور میرے سامنے ہشت پہلو میز پر دھرا وہ کلاک تھا جس کی سوئیاں 28 جنوری 1881 ء بروز بدھ کی شام آٹھ بج کر 36 منٹ پر اس کمرے کے مکین کے ساتھ ہی ساکت ہو گئی تھیں۔

کمرہ سادگی کی تصویر تھا۔ عین وسط میں رائٹنگ ٹیبل اور دیوار کے ساتھ صوفہ تھا۔ ملمّع زدہ فریم میں اس کی تصویر کے عین نیچے لیٹر بکس تھا۔ تین خانے والے ریک کے ہر حصے میں کتابیں تھیں۔ الماری میں بھی کتابیں چنی ہوئی تھیں۔ اس سادہ سے کمرے میں اسی میز پر اس نے اپنا آخری شاہکار ناول برادرز کرامازوThe Brothers Karamazovتخلیق کیا۔ میخائل پیٹراشوشکائے Mikhail Petrashevskyسے ملنا اُس کی زندگی کا ایک اہم واقعہ تھا۔

1848 ء میں یورپ میں انقلابی تحریک چلی تو نکولس اول نے خو ف زدہ ہو کر رُوسی وزراتِ داخلہ کو ایسی تما م تحریکوں کے بارے میں رپورٹ کے لئے کہا جو رُوس میں سرگرم عمل تھیں۔ میخائل پیٹرا شوشکائے جو سوشلسٹ نظریات کا بڑا پرچارک اور دوستو ووسکی جس کا پرجوش حامی تھا انھیں ایک میٹنگ میں گرفتار کرلیاگیا۔ چند ماہ پیٹر اینڈ پال قلعے میں گزارنے اور تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ آنے پرمنتقلی سائبیریا کے شہر اومسک Omsk کی سنٹرل جیل میں ہوئی۔

آٹھ ما ہ بعد نکولس اول کا اُنہیں عبرت ناک سزا دینے کا فیصلہ منظرِ عام پر آ گیا۔ 22 دسمبر 1849 کی اُس سرد ترین صبح کا احوال بھی سُنیے جب دوستو وسکی نے موت کو لمحہ بہہ لمحہ قریب آتے دیکھا۔ سمینو وسکائے سکوائیر میں لوگوں کا ایک جمّ غفیر موجود تھا۔ فوج اور پولیس کے دستے مستعد کھڑے تھے۔ پادری موجو د اور جلاّد حاضر۔ نکولس اول بہ نفس نفیس یہاں تھا۔ اس شو کو ایک عبرت انگیز مثال بنانے کے لئے ریاستی فنڈز بھی بے دریغ استعمال ہوئے تھے۔

مجرموں کی لمبی قطار موت کے انتظار میں کھڑی تھی۔ پلیٹ فارم سے کوئی بیس قدم پرے تین پوسٹیں بنائی گئیں۔ پہلے تین مجرموں کو پوسٹ پر لا کر گاؤن پہنائے جاتے جن کے ساتھ لمبے لمبے ہُڈ ہوتے جو اُن کی آنکھوں کو ڈھانپ لیتے۔ پادری کر اس کے ساتھ ہر ایک کے پاس جاتا۔ بازوؤں سے تھام کر پلیٹ فارم پر لائے جاتے۔ فردِ جرم اُونچی آواز میں پڑھی جاتی۔ ڈرم بجتا اور ”موت فائرنگ سکواڈ کے ساتھ۔ “ الفاظ گونجتے اور زندگی پل جھپکتے میں موت کے ہاتھوں جھُول جاتی۔

اگلے مُجرم نئی فرد جرم کے ساتھ۔ دو موتوں کے درمیان بیس منٹ کا وقفہ اور تیاری کے بعد پانچ منٹ کا۔ اُس پانچ منٹ کے جس تجربے سے دوستو وسکی گزرا وہ اُس کی زندگی کا ناقابل فراموش تھا۔ سمینو وسکائے سکوائیر کے چرچ کی سُنہری چھت اور گُبند، لوگ، دُھوپ، چمکتا سُورج، ہوائیں، آسمان اور میدان میں موت کے سجے بازار سے پھوٹتی کہیں آس اور امید کی کوئی موہوم سی کوئی کرن۔ مقدر کا سکندر نکلا۔ بس پل بھر میں ہی زندگی نے موت کے منہ سے اُچک لیا۔

نکولس اول موت سے خاصا محظوظ ہو چکا تھا۔ بقیہ کے لئے قید با مشقت کا حُکم دیتا اُٹھ گیا تھا۔ ” ایڈیٹ میں پرنس ماشکن کی زبان سے اُس نے اپنے اسی تجربے کو دہرایا ہے۔ زندگی ہمارے اندرہے۔ باہر نہیں۔ “ اومسکOmskجیل میں چار سالہ مشقت بھری قید نے اسے اتنی تکلیف نہیں دی جتنی قلم کاغذ اس کے ہاتھ سے چھننے پر ہوئی۔ اسے اسی کا ڈر تھا اور یہی اُ س نے کہا۔ ”اگر مجھے لکھنے نہ دیا گیا تو میں مرجاؤں گا۔ کاغذ اور قلم کے ساتھ میں پندرہ برس کی سزا کو بھی بخوشی کاٹنے کے لئے تیار ہوں۔

“ بیرکوں میں یہ چار سال چوروں، ڈاکوؤں اورقاتلوں کے ساتھ گزارے۔ ان کرداروں میں جو گہرائی، توانائی اور خُوبصورتی اس نے دیکھی وہ کہنے پر مجبور ہوا۔ ” یہ تو بدصورت سیپیوں میں بند وہ سونا ہے جن کی دریافت میں نہ مجھے اپنے برسوں کے ضائع ہونے اور نہ کاغذ قلم نہ ہونے کا دُکھ ہے۔ میں نے ان حیرت انگیز لوگوں کو تفصیل اور سچائی سے پڑھنے اور ان کے کرداروں کی بے شمار جہتوں کو پرکھنے کی جو کوششیں کی ہیں وہ میرے لئے بہت بڑا اثاثہ ہے۔

میں نے رُوس کو نہیں پر رُوسی لوگوں کو ضرور جانا اور سمجھا ہے۔ Crime and Punishmentاس کے بعد لکھی گئی۔ “ اور اگلے چھ سال اُس نے سائبیریا کے قصبے میں ڈر ل اور مارچنگ کرتے ہوئے گزارے، پر یہاں اسے لکھنے پڑھنے کی آزادی تھی۔ اپنے ہر خط میں وہ اپنے بھائی کو اپنی پسندیدہ کتابوں اور رسالوں کے نام بھیجتا۔ اور سائبیریا میں اُس نے ”My Uncle ’s Dream“ اور The ”Village of Stepanchikovo“ لکھیں۔ زندگی کے آخری برسوں میں اس کے پڑھنے والوں کے سامنے اس کا ایک اور رُخ آیا تھا۔

ہمارے اشفاق احمد صاحب کی طرح اُس کا رُحجان بھی رُوحانیت کی طرف ہو گیا تھا۔ لوگوں کے مسائل سننا، اپنی مشکلات سے بھرے ہوئے ان کے خط پڑھنا، ممکنہ حد تک ان کی پریشانیوں کو دور کرنے اور ان میں آسانیا ں بانٹنے کی کوشش کرنا اس کا مطمع نظر ہو گیا تھا۔ اور پھر وہ دن آیا جب اُ س نے کہا۔ اٹھائیس 28 جنوری کی صبح اس نے کہا۔

اٹھائیس 28 جنوری کی صبح اس نے کہا۔
”اینا آج مجھے دنیا سے چلے جانا ہے۔ تم انجیل لاؤ۔ “
”پس جیسز نے اُسے کہا۔ اب ایسا ہونے دو۔ “
اور اُس نے آنکھیں کھول کر ایک لمحے کے لئے اُس کی طرف دیکھا اور کہا۔

”اینا تم سنتی ہو۔ “
اُس نے آنکھیں موند لیں۔
گھڑی کی سوئیاں ساکت کر دی گئی تھیں۔ یہ اٹھائیس جنوری 1881 ء تھا اور وقت آٹھ بج کر چھتیس منٹ کا تھا۔
اور ایک عظیم لکھنے والا دنیا سے رخصت ہو رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).