عمران خان کے پاس ابھی سنبھلنے کا وقت ہے


پاکستان کو آزاد ہوئے 72 سال کاعرصہ گزر چکا ہے مگربدقسمتی سے ملک میں جمہوریت کو پنپنے کاموقع نہیں ملا۔  روز اول سے عوامی حکومت ناکام ہی نظرآتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے کبھی اندرونی و بیرونی  سازشوں کو بجھانے کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے حکمرانوں کے اقتدار کا چراغ جلتا بجھتا رہا۔ قائداعظم محمدعلی جناحؒ کے رخصت ہوتے ہی جمہوریت کے زوال کا وہ دورشروع ہوا کہ آج تک جمہوریت خطرے کی زد میں ہے، بابائے قوم محمدعلی جناحؒ کے انتقال کے بعد صرف دس سالوں کے اندر سات وزیراعظم آئے اور گئے جس پر طنزکرتے ہوئے ہندوستان کے وزیراعظم جواہرلال نہرو نے کہا کہ میں نے اتنی اپنی دھوتی نہیں بدلی جتنے پاکستان نے وزیراعظم بدلے ہیں (ہندوستان کا 1958ء تک پہلا وزیراعظم اقتدار میں تھا جبکہ ہمارے سات وزیراعظم ملک کی باگ ڈور سنبھالنے میں ناکام ہوچکے تھے)۔

مقام شکر ہے کہ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف کے مارشل لا اور ایمرجنسی کی وجہ سے فوج کے سربراہان دیرتک اقتدارمیں قابض رہے وگرنہ ناجانے دنیا بھر میں اور کتنی جگ ہنسائی ہوتی، میں ہرگز جمہوریت کامخالف نہیں اور نہ ہی آمریت کا حامی ہوں بلکہ میں توخلافت کے بعد جمہوری طرز حکومت کو لوگوں کے لئے بہترین طرزحکومت سمجھتا ہوں مگر افسوس ہمارے حکمرانوں، جمہوریت کے علمبرداروں نے کبھی سنجیدگی کامظاہرہ نہیں کیا۔ اپنے مفاد اور انا کی خاطر قومی وملی مفادات کو نظرانداز کرتے رہے ان میں حکمرانی کا ہنر ہو نا ہو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے عزتِ نفس مجروح کرنے کے ہنر سے خوب واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوری حکومتوں سے نوکرشاہی (بیوروکریسی) اور ادارے زیادہ مضبوط ہیں۔

حال ہی میں ملک میں عام انتخابات ہوئے اور ملک کے بائسویں وزیراعظم کے طور پر ماضی کے مایہ ناز کرکٹر جناب عمران خان وزیراعظم منتخب ہوئے۔ وزیراعظم عمران خان نے گزرے دور کے حکمرانوں کے مقابلے میں پاکستان کے عوام کو ایسے دلفریب خواب دکھائے کہ قوم خان صاحب کی متوالی ہو گئی۔ انہوں نے ماضی کے حکمرانوں پر شدید تنقید کی۔ ان کی ایک ایک کوتاہی کی نشاندہی کی۔ حکمرانوں کو خوب آئینہ دکھایا۔ عوام الناس کو اعتماد دلایا کہ وہ آ کر سب ٹھیک کر دیں گے۔ وزیراعظم نے ہمیشہ اپنی تقریروں اور پیغامات کے ذریعے عوام سے تبدیلی کے وعدے کیے جس کی بنا پرعمران خان نئی نسل کی امیدوں کا محوربن گئے۔ ایک سپورٹس مین ہونے کے باوجود عمران خان بھول گئے کہ گراونڈ کے باہر بیٹھے کمنٹری کرنا جتنا آسان ہے فیلڈ میں کھیلنا اتنا ہی مشکل، فیلڈ میں کھیل کر جیتنے کے لئے تجربے، عمدہ پرفارمنس کے ساتھ ساتھ اچھی قسمت کی بھی ضرورت ہوتی ہے وگرنہ فیلڈمیں شکست یقینی ہے۔

کپتان اوراس کی پوری ٹیم کی قسمت تو اچھی ہے پرتجربہ نا ہونے کے برابر۔ کھلاڈیوں کی پرفارمنس انتہائی ناقص جس کی وجہ سے شکست کا امکان بہت زیادہ ہے۔ اگرکپتان کو ناکامی ہوئی تو کپتان کا بھرم اور عوام الناس کی امید بکھر جائے گی جس کا خمیازہ قوم کو مڈٹرم الیکشن کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔ یقیناً اس وقت قوم اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا، سنبھلنے کا بھی موقع ہے۔ اس سے پہلے کہ سب کچھ بکھرجائے، حکومت کوچاہیے کہ ماضی کی تلخ حقیقتوں سے سبق سیکھے۔ بڑی مشکلوں سے جمہوریت کو استحکام نصیب ہوا ہے۔ لولی لنگڑی ہی سہی، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دو جمہوری حکومتوں کو اپنی آئینی مدت پورا کرنے کا موقع ملا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔ وزیراعظم صاحب کو اس تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے برداشت کا مادہ پیدا کرنا ہو گا۔ جارحانہ سیاست کو ترک کرنا ہو گا۔ کپتان اور ان کی ٹیم کو کمنٹری پر نہیں، پرفارمنس پر توجہ دینا ہ وگی۔ اپنے تلخ جملوں سے اپوزیشن کو بھڑکانے کی بجائے مثبت کارکردگی سے عوام الناس کا دل جیتنا ہو گا۔ بڑھتے ہوئے مسائل پر قابو پانے کے لئے اپوزیشن سے دوستانہ مراسم قائم کرنے ہوں گے۔ پارلیمانی روایات کو قائم رکھتے ہوئے اپوزیشن کے تجربہ کار اور سلجھے ہوئے رہنماؤں سے صلاح مشورے کرنے ہوں گے تاکہ عوام کو ریلیف فراہم کر سکیں وگرنہ ماضی کی طرح جمہوری قوتوں کے اختلافات سے فائدہ اداروں اور ان کے کرپٹ افسران کو ہو گا اور جمہوریت کے علمبردار اور ان کی حکومتیں ناکام ہوتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).