حجامہ: سنت کے نام پر ایک اور ڈرامہ


حجامہ بارے میرے تحفظات، ایک اردو کتاب سے شروع ہوئے۔ یہ کتاب کراچی کے ایک معروف تبلیغی ڈاکٹر صاحب کی تائید سے شائع ہوئی ہے جس کے ہر صفحے پر، انسانی ہیکل کی آؤٹ لائن ہے اور اس کے ہر عضو پر، کچھ دائرے لگے ہیں جن پر حجامہ کرنے سے، تاریخ انسانی میں آجتک معلوم سارے امراض کا افاقہ ہوسکتا ہے۔ (ماشاء اللہ) ۔ برسبیل تذکرہ، امریکہ پلٹ ڈاکٹر صاحب، مستورات کا مدرسہ چلایا کرتے ہیں۔ (اچھے خاصے پروفشنل لوگوں پہ عقیدہ بھاری پڑجاتا ہے حتی کہ نوبل پرائز لینے والا ایک جینئس پاکستانی، اپنے عقیدہ کی خاطراپنا وطن چھوڑ جاتا ہے) ۔

پہلے تو حجامہ کا کپ، صرف پیٹھ پر لگایا جاتا تھا۔ آج کل، کان کی لو تک پہ حجامہ کرنے کے لئے ”قہوہ کی پیالی“ جتنے کپ بھی دستیاب ہیں اور دھڑلے سے دماغ کے تالو پربھی بلیڈ مارے جارہے ہیں۔ جمعیت علماء سے تعلق رکھنے والے ایک حکیم صاحب کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں۔ لکھتے ہیں : ”ایک اللہ والے نے ہمارے ایک دوست کا حجامہ کیا۔ بلیڈ سے ریڑھ کے قریب اعصاب پر گہرا کٹ لگنے سے اس کا نچلا دھڑ مفلوج ہوگیا اور یوں 27 سالہ شادی شدہ نوجوان زندگی بھر کے لیے مفلوج ہو چکا ہے۔ حجامہ کا سنت ہونا یا نہ ہونا الگ بحث ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ حجامہ کا استرہ بندر کے ہاتھ لگ چکا ہے“۔

امید ہے کہ آپ کو اس موضوع پر میری کایا پلٹ کا پس منظر سمجھ آگیا ہوگا۔ اب واپس، شروع میں ذکر کردہ، پانچ نکات کی تشریح پر چلتے ہیں۔

1۔ حضور نبی کریم کی آمد کا اصل منشا، انسانیت کو خدا سے جوڑنا تھا۔ وہ میڈیکل سپیشلسٹ کے طور پر نہیں آئے تھے۔ دنیاوی معاملات میں بھی وہ سب لوگوں سے ذہین تھے چنانچہ ہر فیلڈ میں نبی کا مشورہ موجود ہے۔ مثلاً مسجد نبوی و ملحقہ بازار کا نقشہ خود نبی نے زمین پر لکیریں ڈال کر بتایا تھا۔ خاکسار، بآسانی، اس پہ ”نبوی انجنئرنگ“ نامی رسالہ لکھ سکتا ہے۔ (جس بنیاد پر ”طب نبوی“ والی اصطلاح بنائی گئی ہے، اسی بنیاد پر ”نبوی کوکنگ“، نبوی ٹیلرنگ ”بھی ایجاد کی جاسکتی ہے) ۔ ایک حدیث کے مطابق، صحابہ کو خود رسول کریم نے فرمایا تھا کہ دنیاوی معاملات میں میرے مشورہ پر“ سیکنڈ اوپینئین ”بھی لے لیا کرو۔ پس ہم تو عرض کرتے ہیں کہ جس کام کے لئے رسول کریم، مبعوث ہوئے تھے اگر اسی تک محدود رہا جائے تو یہ دین کے لئے بھی بہتر ہوگا۔

2۔ نبی کریم جب کبھی بیمار پڑے تو اس زمانے میں مروج بہترین علاج کو اختیارفرمایا۔ فصد لگانا (حجامہ کرنا) بھی پہلے سے عرب میں مروج تھا۔ جونک / سینگیاں لگوانا بھی ایک علاج تھا جو نبی نے کیا۔ تیز بخار کا علاج، سر پہ بھیگی پٹیاں باندھ کر اور زخم مندمل کرنے کا علاج، بوری کا پھاہا جلا کررکھنے سے کیا جاتا تھا۔ یہ بھی حضور نے کیا۔ نجد کے لوگ، یرقان کے علاج کے لئے باکرہ اونٹنی کا صباحی پیشاب استعمال کرتے تھے (یہ مکی لوگوں میں معروف نہیں تھا) تو یہ بھی حضور نے تجویز کیا۔

پس جان لیجیے کہ بیماری کا بہترین علاج کرنا ہی سنت رسول ہے نہ کہ خاص حجامہ وغیرہ۔ (حجامہ میں بھی حضور نے پلاسٹک کے پھونکنے استعمال نہیں کیے تھے) ۔ چنانچہ واضح ہوکہ حجامہ سمیت یہ سارے طریقہ ہائے علاج، اعلان نبوت سے پہلے عرب میں مروج تھے جن کو حضور نے اختیار کیا تھا۔ ان میں سے کوئی چیزآسمان سے نازل شدہ وحی نہیں ہے۔

3۔ شہد اور کلونجی سمیت کسی بھی چیز کو اسلام نے بطور دواء ”حکم“ نہیں دیا بلکہ ”تجویز“ کیا ہے۔ (اسلام اور فارمیسی الگ چیزیں ہیں) ۔ قرآن کا اعجاز یہ ہے کہ جیالوجی سمیت ہرعلم بارے بعض ایسے اشارے دیے ہوئے ہیں جو ریسرچ کرنے والوں کے لئے گائیڈ بن سکتے ہیں۔ یہ اشارے ”حکم“ کا درجہ نہیں رکھتے۔ عوام کے لئے قرآن وحدیث کا اصول یہ ہے کہ کسی بھی شعبہ بارے، اس زمانے کے معروف ماہرین فن سے رجوع کیا جائے۔

قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ شہد میں خدا نے شفا رکھی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سردیوں میں رضائی سیتے ہوئے، ایک مدرسہ کے طالبعلم کی آنکھ میں موٹی سوئی لگ گئی تھی تو حضرت شیخ نے اس کی آنکھ میں شہد ڈلوا دیا تھا (کہ اس میں شفا ہے) ۔ اس کو بعد میں میو ہسپتال لے جانا پڑا تھا۔

چنانچہ، مذکورہ آیت کے ذیل میں بھی کئی پہلو سے سوچنا ضروری ہوگا مثلاً۔

قرآن میں اگر شہد کا اگر بطور دوا ذکر ہے تو کیا شہد کے علاوہ کوئی اور دوائی لینا کفر شمار ہوگا؟ (کیونکہ قرآن میں تو صرف شہد کا ذکر ہے) ۔ پھر تو احادیث میں اگر کلونجی وغیرہ کو بطور دوا بتایا گیا تو یہ گویا قرآن میں کمی یا نقص کا اشارہ ہوا۔

قرآن نے شہد کا ذکر کیا ہے۔ کیا یہ چھتے والا شہد ہے یا بیری والا؟ کیا فیکٹری میں کیمیکل اور چینی سے تیار شدہ شہد بھی اس الوہی ”حکم“ میں شامل ہوگا؟ (کیونکہ اب اس کا نام بھی شہد ہی رکھا گیا ہے) ۔

قرآن نے شہد کے استعمال کی ترتیب تو بتائی نہیں کہ کس مرض کے لئے، کتنے چمچے، کس وقت اور مہینے میں کتنی بار لینا ہیں؟ ۔ کیا اس بارے اپنی عقل استعمال کرنا شرک تو نہیں ہوگا؟ وغیرہ

بنا بریں، شہد والی آیت کو بھی خاکسار، ایک نصیحت سمجھتا ہے، امر شرعی نہیں۔

اسی طرح، ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ کلونجی میں موت کے سوا ہر بیماری کی شفا ہے (ایسی احادیث دوسری چیزوں بارے بھی ہیں)۔ اس پہ بھی اہل فن کی رائے ہی اصل ہوگی (یعنی ڈاکٹر حضرات کی)۔ حضور نے کلونجی استعمال کی ہے اور اس کی نصیحت بھی کی ہے مگربلغمی مزاج والے، اس کی وجہ سے بلند فشار خون میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ حضرت عامر ایک صحابی ہیں۔ انہوں نے رسول پاک کو جونک لگاتے دیکھ لیا اور اسے سنت سمجھ کر انھوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ خود فرماتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں حافظہ پر اثر پڑا حتی کہ نماز میں سورہ فاتحہ ہی بھول جاتا تھا۔ (اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ انہوں نے بخار کی حالت میں ایسا کیا تھا) ۔ پس اگر مستند حدیث رسول بھی موجود ہو تو بھی اس میں احوال وظروف، زمان ومکان اورافراد کے مزاج کی رعایت کرنا عین شریعت ہے۔

بلکہ یوں سنا ہے کہ اگر شوگر کے مریض کو، کوئی مستند ڈاکٹرصاحب، شہد کھانے سے منع کردے اور پھر بھی وہ شہد کھائے جس کے نتیجے میں مرجائے تویہ خودکشی شمار ہوگا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3