حجامہ: سنت کے نام پر ایک اور ڈرامہ


4۔ حجامہ بارے کافی احادیث پیش کی جاتی ہیں (جس ملک میں گالی کا جواز ثابت کرنے کو قرآن وحدیث سے دلیل لائی جائے، وہاں یہ کوئی بڑی بات نہیں) ۔ ہمارے ملک کے ایک مشہور خطیب نے حدیث سنائی کہ معراج کی رات، ہر آسمان کے فرشتوں نے حضور کو حجامہ بارے تاکید کی۔ بھائی، ہمیں تو معراج اور حجامہ کی کوئی ”ریلونسی“ سمجھ نہیں آتی کہ خدا اور رسول کی اس اہم میٹنگ میں حجامہ کیوں ایجنڈا پررکھا گیا؟ موصوف نے مگر عوام کو نصیحت کی کہ حجامہ اختیار کرو اور ڈاکٹروں سے جان چھڑاؤ۔ (بعد میں جب اپنے دل کے سٹنٹ ڈلوانے گئے تو خود کو بھی اور اپنے دین کو بھی مذاق کا نشانہ بنوالیا) ۔

دیکھئے، اگر یہ حجامہ ”سنت“ ہوتی تو فقہ کے ائمہ کرام ضرور اس کی اتباع کرتے۔ یار لوگوں نے تو ائمہ فقہاٰء بارے 40 سال تک یہ بھی مشاہدہ کیا ہوا ہے کہ وہ عشاء کے وضو سے فجر پڑھا کرتے تھے، تو ان کی حجامہ بارے کوئی روایت کیوں دستیاب نہیں؟ تبلیغی جماعت کے موسس مولانا الیاس تو ہر چھوٹی بڑی سنت کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ خاصا عرصہ بیمار بھی رہے تھے مگر ان کی سوانح میں بھی حجامہ کا ذکر نہیں ملتا۔

ایک دوست نے خاکسار پر توہین حجامہ کا الزام لگایا تو عرض کیا کہ وہ صحابہ اوراسلاف، جنہوں نے حجامہ نہیں کروایا بلکہ دیگر علاج کروائے (بلکہ دیگر دواؤں پہ کتب بھی لکھیں) ، کیا وہ بھی توہین حجامہ کے مرتکب ہوئے ہیں؟ ۔

سخت الفاظ کے لئے بالکل معذرت خواہ نہیں ہوں کہ لوگوں نے اپنے کاروبار کے لئے ”سنت“ کے نام پر ڈرامے رچا رکھے ہیں۔ سماجی معاملات میں قرآن وحدیث کی راہنمائی لینے سے ہمیں کوئی انکار نہیں مگر یہ راہنمائی، کسی مولوی کی بجائے ”اسلامی نظریاتی کونسل“ کے پلیٹ فارم سے مہیا کی جائے۔

5۔ حجامہ کے موضوع پرمندرجہ ذیل چار سٹیک ہولڈرز ہیں۔ کسٹمرز، دکاندار، مولوی حضرات اور گورنمنٹ۔ ان چاروں سے ہم الگ الگ درخواست کرتے ہیں۔

حجامہ کے ”پیشنٹ حضرات“ سے ہماری پہلی عرض تو یہ ہے کہ حجامہ کے نام پرخون بہانے کی بجائے، کسی مستحق کودے دیا کریں۔ آج کل لاکھوں تھلیسیمیا پیشنٹ خون کی ضرورت کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں۔ ان کو خون دینا، ”ساری انسانیت کا بچاو“، والی آیت کے زمرے میں آتا ہے۔ تاہم، اگر آپ نے حجامہ ہی کرانا ہے تو خیال رہے کہ حجامہ وغیرہ صرف رجسٹرڈ پروفشنل لوگوں سے کروایا جائے۔ (ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ خدا کو وہ کام پسند ہے جو ٹیکنیکلی اعلی معیار کا ہو۔ اسی کو سنت کہتے ہیں) ۔

حجامہ کرنے والے دکانداریا شوقین حضرات سے گذارش ہے کہ بدن کی عام جگہوں پہ کپ شپ لگاتے رہا کریں لیکن بعض جگہوں پہ باریک شریانیں اور وریدیں ہوتی ہیں۔ ان کو نقصان پہنچ جائے تو تلافی مشکل ہوتی ہے، پس ہر جگہ یہ کھیل نہ کھیلا کریں۔ ماہرِ حجامہ نہ ہونے کی صورت میں خون کے کلاٹ بننے کے امکانات بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو خطرناک صورتحال ہے۔

جہاں تک مولوی صاحبان کا تعلق ہے تو کاش کہ مولوی اپنے منصب کو پہچان لیتا تو قوم کی تقدیر بدل جاتی۔ مولوی کویہ بتانا چاہیے تھا کہ اسلام نے دیگر مسائل سمیت، انسانی صحت بارے بھی کیونکر راہنمائی کی ہے؟ (آنکھ، دانت تک کی صحت کی بارے ہدایات دی ہیں) ۔ چنانچہ مسلمان کے ذمہ ہے کہ ہر شعبہ میں ریسرچ کرے اورجدید سے جدید ترعلاج دریافت کرے۔ مگر مولوی نے اب اسی کو دینی علم بنا دیا ہے کہ آنکھ میں سرمہ کیسے ڈالا جائے یا مسواک کی کون سی موٹائی شرعی ہے؟ ۔

مولوی صاحبان سے ہماری فقط یہ گذارش ہے کہ اس فطری دین کو، کسی کا بزنس چلانے کے لئے، اسلامی طوطوں والا دین نہ بنائیں، کہ کراچی کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو گھاٹا ہو تو سبز، کلیجی عمامے کو سنت منوا کر، کسی کی بند مل چلا دی جائے۔

گورنمنٹ سے ہم ہرگز یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ حجامہ پرپابندی لگائی جائے۔ حکومت کا کام یہ نہیں ہوتا کہ لوگوں کے مشاغل پر قدغن لگائے بلکہ حکومت کا کام اس پہ چیک رکھنا ہے کہ کسی کی ”ہوبی“ یا ”بزنس“ کسی کے لئے ضرر کا باعث نہ بن جائے۔ پس ہمارا گورنمنٹ سے مطالبہ ہے کہ حجامہ کے کاروبارکو ریگولیٹ کیا جائے یعنی اس کی طبی گریڈیشن اور رجسٹریشن کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3