منصورشباب: ایک سدا بہار فنکار


پہاڑوں کے دامن میں واقع وادی چترال سردیوں کے آمد سے زمین کے ساتھ دلوں کے بھی ٹھنڈ پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے میں شعر گوئی اور کلاسیکی موسیقی نے دلوں کو گرمانے کا کام نہایت ہی احسن طریقے سے نبھایا ہے۔ صدیوں سے چلنے والی اس روایت نے منصور شباب جیسے لافانی فنکاروں کو جنم دیا۔ یوں تو چترال میں لوگ بابا سیار، سنوغرو ملنگ زیارت خان زیرک وغیرہ جیسے شعرا و فنکاروں کے فن سے پہلے ہی واقف تھے مگر شباب اور ان کے بینڈ نے سامعین و ناظرین کو نہ صرف نوجوان نسل کی غزلوں سے روشناس کرایا بلکہ قدیم (چترالی) کھوار گیتوں (کاڑومن) کو بھی اس خوبصورتی سے گایا کہ کھوار ثقافت نہایت ہی کم عرصے میں نفاست کی بلندیوں کو چھونے لگی۔

شباب نے گلوکاری کا آغاز سکول کے زمانے میں روایتی موسیقی کے اجتماع ”اشٹوک“ سے کیا۔ بعد میں کالج کے زمانے میں سنجیدگی سے گلوکاری شروع کی۔ اب تک چار ہزار سے زائد کھوار غزلیں اور گیت مداحوں کی نذر کر چکے ہیں، جن میں ہر قسم کے گیت بشمول غزلیں، قدیم لوک گیت اور مرثیے سب شامل ہیں۔ شباب نے کھوار موسیقی پر مشتمل 170 کیسٹز تخلیق کیے تھے مگر بد قسمتی کیسٹ کا زمانہ گزر جانے کی وجہ سے وہ سب ضائع ہو گئے، جس کا شباب کو کافی افسوس ہے۔

منصور علی شباب کا شمار کھوار ثقافت کی جانی پہچانی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ بیس سال سے کھوار ثقافت کی فروغ میں کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں دوبئی کے علاوہ ملک کے کونے کونے میں محفل موسیقی کا انعقاد کیا۔ چترال میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو آپ کا مداح نہ ہو۔ آپ چترال کے علاوہ گلگت میں بھی ایک جانی پہچانی شخصیت ہے۔

شباب کے بقول مرزا علی جان، امیر گل اور بابا فاتح کے فن سے متاثر ہو کر گلوکاری شروع کی۔ آپ نے سب سے زیادہ غزلیں افضل اللہ افضل کی گائی ہیں جنہیں وہ کھوار شاعری کا ساغر صدیقی کہتے ہیں۔

شباب کے بقول چترال جیسے معاشرے میں غزل گوئی و گلوکاری کسی کو روزگار مہیا کر نہیں کر سکتی۔ بسا اوقت فنکار و شعراء کو خود ہی اپنے فن کو فائی نانس کرنا پڑتا ہے۔ سچ ہے کہ کہ شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔

موجودہ دور میں جہاں حکومتی اور فلاحی سطح پہ سر پرستی نہ ہونے کی بدولت روایتی موسیقی سست روی کا شکار ہے، شباب کو خوف ہے کہ کہیں کھوار موسیقی اپنی پہچان کھو نہ دے۔ ڈان نیوز کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں شباب نے کھوار موسیقی کے فروغ کے لیے میوزک اکیڈیمی کے قیام کو بہت ضروری قرار دیا۔ اس کے علاوہ اپنے 170 کیسٹز، جس میں ہر ایک کیسٹ میں دس گیت ہوا کرتے تھے، کے ضائع ہونے پر بھی دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔

ہمارے شعرا و گلوکار جو اپنے تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے انسانی جذبات و احساسات کو نہایت نفیس و دلفریب انداز میں پیش کر کے زندگی میں خوبصورت لمحوں کا اضافہ کچھ اس انداز میں کرتے ہیں کہ سچ میں زنگی گلزار لگتی ہے۔ مگر ہمارے رجعت پسند معاشرے میں فن کاروں کو ان کا صحیح مقام کم ہی ملتا ہے۔ ایسے میں شباب اور ان کے ساتھی گلوکاروں کے ضائع شدہ کیسٹز کی ریکوری اور میوزک اکیڈیمی کے قیام کے ذریعے حکومت، فلاحی ادارے اور کھوار موسیقی کے مداح نہ صرف شباب جیسے فنکاروں کی خدمات کا اعتراف سکتے ہیں، بلکہ چترالی موسیقی کے فروغ میں بھی اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).