نیشنل ایکشن پلان کس کے لئے تھا؟


(شہریاراحمد سعید\"umeed)
ملک پاکستان کے سابق دارالحکومت کراچی کے حالات کشیدہ ہوتے ہی بعض حلقوں بشمول سوشل و الیکٹرانک میڈیاء ، سے بازگشت سنائی دی کہ \”نیشنل ایکشن پلان بری طرح ناکام ہو گیا ہے اور یہ صورتحال سیکیورٹی اداروں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے\”۔

مذکورہ بالا تجزیہ مایوسی پھیلانے کے مترادف ہے۔ غالباً یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جیسے رینجر آپریشن سے قبل کراچی میں ٹارگٹ کلنگ شاذ و نادر ہوتی تھی اور کراچی میں نوگو ایریا کا کوئی سوال ہی نہیں پیداہوتا تھا اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ اب یہ سیاسی شعبدہ باز یہ راگ الاپنے لگے ہیں کہ ہم اس آپریشن کے حامی بھی ہیں مگر یاد رہے کہ ہمیں دیوار سے بھی لگایا جارہا ہے۔

ہائے اس زودپشیماں کا پشیماں ہونا

مگر یہ راز اب کس پر افشا ہوکہ نیشنل ایکشن پلان کس کے لیے تشکیل دیا گیا تھا ؟ یہ مسودہ ایک قوم کے لئے بنایا گیا تھا۔ کیا ہم ایک قوم ہیں ؟ وہ جن کے بارے میں حبیب جالب یہ کہنے پرمجبور ہو گئے تھے کہ،

دس کروڑ یہ گدھے
جن کا نام ہے عوام

یہ جنوبی ایشیاء میں واقع گندمی رنگت والے لوگوں کا ملک جس کی آبادی ایک جم غفیر کی سی صورت اختیار کر چکی ہے اور اس ہجوم کے واسطے کوئی بھی نیشنل ایکشن پلان اس وقت تک موثر نہیں ہوسکتا جب تک انہیں یہ نہ باور کروایا جائے کہ \”موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں\”۔ جب تک معاشرے میں اختلاف رائے اور اتفاق رائے میں توازن قائم نہ ہو، اور بے جا تنقید سے بھی جان چھڑائی جائے اور اندھی تقلید کی بھی حوصلہ شکنی کی جائے۔ جہاں اختلاف رائے کو ذاتی و شخصی اختلاف نہ تصور کیا جائے۔ ذہنی پسماندگی کا عالم یہ ہے کہ مصنف کسی دوسرے مسلک کی مسجد میں نماز پڑھنے چلا گیا تو مصنف کے مسلک والے مصنف سے یوں خفا ہونے لگے گویا اس نے حمزہ علی عباسی والی غلطی دہرا دی ہو یا اس نے ہٹلر کو راہ حق کا شہید قرار دے دیا ہو مگر یہ سوال، تخیل کے بحر بے کراں میں پتھر بن کر گرا کہ زندہ اقوام تو رواداری کو شعار بنائے رکھتی ہیں مگر یہاں عدم برداشت کا بیج کس نے بو دیا ۔

جہاں مصطفی جان رحمتؐ نے سلام میں پہل کرنے والے کا زیادہ اجر بتایا ہے اور وہیں اس کنفیوزڈ (confused ) معاشرے میں سلام میں پہل کرنے والے کو اپنا ماتحت تصور کیا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ قومی رویوں میں بہتری لانے کی اشد ضرورت ہے۔ مبالغہ آرائی سے پزہیز کروں تو اسی پر اکتفا کروں گا کہ اس ملک میں کہیں علاقائی اور کہیں لسانی بنیادوں پر علیحدہ صوبوں کے مطالبے کیے جاتے ہیں حالانکہ اصولی طور پر جب وفاق سے انتظامی معاملات کا بوجھ ہلکا کرنا مقصود ہو تو نئے صوبوں کی ضرورت پڑتی ہے مگر یہاں مفاد پرست ٹولہ کبھی آرمی آپریشن کا بہانہ کرتے ہوئے اور کبھی مہاجرین کا نام استعمال کرتے ہوئے اس معاملے پر بھی فی سبیل اللہ فساد کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ بجائے مزید قانون سازی کے، پہلے سے مرتب کردہ قوانین پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے اور ان تمام عناصر سے بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے جو پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ آور ہیں، جو مختلف ذرائع ابلاغ کو بروئے کار لاتے ہوئے نوجوانوں کی ذہن سازی میں مصروف ہیں۔ ہم پہلے ہی سے منقسم ہیں اور اب جدت پسند اور قدامت پسندوں کی تفریق نے اس گرتی ہوئی دیوار کو ایک اور لات مارنے کی مکمل تیاری کر رکھی ہے۔ اس ضمن میں ہر فریق سیاہ کو سپید کرنے میں مصروف ہے اور اس تفرقے کی فضاء میں یکجہتی کی مہک لانے کے لئے \”تحمل و برداشت\” کو دوبارہ بروئے کار لانے کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشرے سے روٹھ کر چلی گئی ہے۔

پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت نے اس وقت سے مضبوط قدم جمانے شروع کر لیے تھے جب سیالکوٹ میں دو بھائیوں منیب اور مغیث کو عوامی غیظ و غضب کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس وقت کسی مفتی نے یہ فتوی جاری کرنے کی زحمت نہیں کی تھی کہ \”بغیر ٹھوس شواہد کے اور جذبات میں آکر کسی کو جبروتشدد کا نشانہ بنانا سنگین گناہ ہے خواہ وہ کوئی مسجد سے پکڑا جوتا چور ہی کیوں نہ ہو\”۔ جو روایات معاشرے میں قابل مذمت تھیں وہی اقدار اب میرے ملک میں روا ہیں۔ تھا جو ناخوب بتدریج وہی اب خوب ہوگیا ہے۔

اللہ میرا، آپ کا اور اس معاشرے کا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments