فوجی عدالتوں میں توسیع؟


حکمران جماعت پی ٹی آئی سے وفاق، پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں شراکت اقتدار اور مسائل حل کرنے کے بارے میں کئے گئے وعدے پورے نہ ہونے پر اتحادیوں نے کھل کر ناراضی ظاہر کر دی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت 5 ماہ بعد ہی مشکلات میں گھری دکھائی دے رہی ہے۔

بلوچستان میں پی ٹی ائی کے اتحادی بی این پی مینگل کے سردار اختر مینگل چھ نکاتی ایجنڈا پرعملدرآمد نہ ہونے پر ناراض ہیں۔ سردار اخترمینگل نے کا یہ کہنا ہے کہ ہم نے جو چھ نکات حکومت کے سامنے رکھے یا تو وہ ان کی ترجیحات میں شامل نہیں یا پھر ان کے اختیار سے باہر ہیں۔ یہی معاملہ پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور ایم کیو ایم پاکستان کی ناراضی میں قدر مشترک لاپتہ افراد کی بازیابی کا معاملہ ہے جس پر وزیراعظم عمران خان کے بھی پر جلتے دکھائی دئیے۔ گزشتہ دنوں ناراض اتحادی اختر مینگل نے خصوصی طور پر وزیراعظم سے اپنی پارٹی کے وفد کے ہمراہ ملاقات کی۔ وزیراعظم نے بلوچستان میں تعلیم، صحت اور دیگر معاملات پر تو کمیشن بنا دیا مگر لاپتہ افراد کے معاملہ پر انہوں نے اختر مینگل کو آرمی چیف سے ملاقات کا مشورہ دے دیا جس پر اختر مینگل نے وزیراعظم سے کہا کہ آرمی چیف سے ملاقات طے کر لیں میں ملنے کو تیار ہوں۔۔۔۔ وہ دن آج کا دن ابھی تک اس معاملے پر پیش رفت سامنے نہیں آئی۔

دوسری طرف ایم کیو ایم پاکستان کے وفد نے بھی گذشتہ دنوں وزیراعظم سے ملاقات کی، جس میں لاپتہ افراد کی بازیابی اور سندھ میں آپریشن کے دوران نائن زیرو سمیت ایم کیو ایم کے سیل کیے گئے دفاتر واپس ان کے حوالے کئے جانے کا مطالبہ کیا گیا۔

وزیراعظم نے ایم کیو ایم پاکستان کے وفد کو سیل شدہ دفاتر کی واپسی کو ملکیت ثابت ہونے سے مشروط کر کے تعاون کی یقین دہانی کا لالی پاپ تو دے دیا مگر اس پر کہاں تک عمل ہو سکے گا؟ سوال یہ ہے کہ دفاتر بند کرنے والے اداروں پر وزیراعظم کا کتنا اور کہاں تک اختیار ہے؟ یہ معاملات پی ٹی آئی کی حکومت کے بااختیار ہونے اور ساکھ کوسوالیہ نشان بنا رہے ہیں جبکہ بلاول بھٹو زرداری پہلے دن سے ہی عمران خان کو”وزیراعظم سیلیکٹ” اور ”بے نامی وزیراعظم” قرار دے رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف پنجاب میں اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے تحفظات بھی دور نہیں کر سکی۔ جس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے معاملہ وزیراعظم عمران خان کے پاس لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی اور ق لیگ کے داخلی معاملات سے باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ گزشتہ شب وزیراعلیٰ پنجاب نے چوہدری برادران سے ملاقات کی تھی جس میں ق لیگ کی قیادت نے اپنے تحفظات سامنے رکھے اور شکوہ کیا کہ آپ اور آپ کی قیادت سے اتحاد کے جو معاملات طے ہوئے ان پر تاحال عمل نہیں ہوا۔ چوہدری پرویز الہی نے عثمان بزدار سے کہا کہ مرکز اور پنجاب میں دو دو وزارتیں طے ہوئیں مگر اپ نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا۔ مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری شجاعت نے عثمان بزدار سے کہا کہ آپ کے والد سے میرے ذاتی تعلقات تھے لیکن پھر بھی معاملات صحیح طرح نہیں چل رہے۔

گزشتہ شب ہونے والی ملاقات میں وزیراعلیٰ پنجاب نے چوہدری برادران کو یقین دلایا کہ جو بھی پوسٹنگ، ٹرانسفر اور دوسرے انتظامی کام ہیں وہ فوری ہوں گے لیکن چوہدری پرویز الہی نے کہا کہ پوسٹنگ ٹرانسفر کوئی مسئلہ نہیں، اتحادیوں کے درمیان جو معاہدے ہوتے ہیں، ان پر عمل ہونا چاہیے۔ چوہدری پرویز الہی نے مشورہ دیا کہ ملکی معاملات جس طرف جا رہے ہیں صورتحال کو ٹھیک کرنا ہوگا، مہنگائی کی صورتحال، معیشت کے معاملات ٹھیک نہ ہوئے تو پھر اتحاد اور حکومت کی دوسری چیزیں ثانوی حیثیت اختیار کر جائیں گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ ملاقات کے بعد ق لیگ نے اسلام آباد میں اعلیٰ سطحی اجلاس بلا لیا ہے جس کی صدارت چوہدری شجاعت حسین کریں گے اور سیاسی امور پر مشاورت ہو گی۔ واضح رہے کہ ق لیگ کے ایک وزیرکو تحفظات تھے اور انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اجلاس میں حکومت کے ساتھ اتحاد سے متعلق اہم فیصلے کیے جائیں گے۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان اور بلوچستان عوامی پارٹی بھی حکومت سے ایک ایک وزارت کا مطالبہ کررہی ہیں۔ مسلم لیگ ق کی قومی اسمبلی میں 5 نشستیں ہیں اور ق لیگ کے طارق بشیر چیمہ وفاقی وزیر ہیں۔ حکومتی اتحادی ایم کیو ایم کے پاس قومی اسمبلی کی سات نشستیں ہیں اور ان کے دو وزرا کابینہ کا حصہ ہیں۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کی قومی اسمبلی میں 3 نشستیں ہیں اور ان کی رکن اسمبلی فہمیدہ مرزا وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں۔ بلوچستان عوام پارٹی(باپ) کی قومی اسمبلی میں پانچ نشستیں ہیں اور ان کی رکن اسمبلی زبیدہ جلال وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے ذرائع یہی بتا رہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان سمجھتے ہیں کہ صوبائی اور مرکزی کابینہ میں پہلے ہی ق لیگ کی اچھی نمائندگی ہے۔ ق لیگ جان بوجھ کر حکومت پر دباؤ بڑھا رہی ہے، مسئلہ مونس الہی کو وزیر بنانے کا ہے۔ پی ٹی آئی قائدین مونس الہی کو کابینہ کا حصہ بنانے کے مخالف ہیں اور سینئر رہنماؤں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ اگر مونس الہی کو کابینہ میں شامل کیا گیا تو دیگر اتحادی بھی کابینہ میں حصہ مانگیں گے۔

تحریک انصاف کی حکومت جو نئے پاکستان، جنوبی پنجاب صوبہ کی تشکیل، کرپشن کے خاتمے، معیشت کی بحالی، روزگار، گھر دینے کے وعدے کر کے اقتدار میں آئی تھی کسی بھی معاملے پر پیش رفت نہ کر سکی۔ دوست ممالک سے جو سرمایہ کاری آئی، وہ بھی انہیں اقتدار میں لانے والوں کا کریڈٹ قرار پا رہی ہے۔ اب حکومت کو فوجی عدالتوں کی توسیع کے بارے میں آئینی ترمیم کی منظوری کے معاملے پر مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ حکومتی اتحادیوں کے اپوزیشن سے رابطے اور اختلافات منظرعام پر آنا سیاسی معاملات کے پچیدہ ہونے کو واشگاف کر رہا ہے۔ حکومت بنانے والوں کے لئے عمران خان کے اتحادیوں کو لاپتہ افراد کی بازیابی کے معاملہ پر مطمئن کرنا اہم سوال بن گیا ہے۔ اب جبکہ حکومت کو منی بجٹ اور فوجی عدالتوں کی توسیع کی آئینی ترمیم کے لئے حمایت درکار ہے، اس اہم مرحلے پر عمران خان کو اتحادیوں سے مک مکا کر کے انہیں رام کرنا پڑے گا-

اپوزیشن کی بڑی جماعت پیپلزپارٹی نے واضح طور پر فوجی عدالتوں کی توسیع کو لاپتہ افراد کے معاملہ سے تعلق کے تناظر میں مخالفت کرنے کا عندیہ دیدیا ہے۔ گو کہ ڈی جی آئی ایس پی آر اس امر کی تردید کر دی کہ لاپتہ افراد سے فوجی عدالتوں کا کوئی تعلق نہیں مگر یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے جس کی نشاندہی پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے سیکرٹری جنرل فرحت اللہ بابر کر چکے ہیں کہ لاپتہ افراد کمیشن کے چیئرمین نے 153 سیکیورٹی اہلکاروں کے جبری گمشدگیوں میں ملوث ہونے کو تسلیم کیا ہے۔ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سوال اٹھا رہی ہے کہ کیا فوجداری نظام دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا؟ پارلیمنٹ اور عدلیہ نے خود بھی فوجی عدالتیں بنانے کی اجازت دینے کے بعد چار سال میں اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا اور نہ ہی فوجی عدالتوں کا متبادل تیار کرنے کے لئے کوئی لائحہ عمل اختیار کیا۔

پیپلزپارٹی کے گذشتہ روز ہونے والے اعلی سطحی اجلاس میں سپریم کورٹ کے حکم پر بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کے نام ای سی ایل سے نکالنے کا جائزہ لیا گیا۔ فوجی عدالتوں کی توسیع کے مرحلے پر حکومت کی جانب سے ای سی ایل سے پی پی چئیرمین اور وزیر اعلی سندھ کے نام نکالنے کا معاملہ عارضی ریلیف ہی قرار پائے گا جب وزیر اعظم اور وزراء خود اسے عارضی رعایت قرار دے رہے ہوں تو یہ تاثر بھی مضبوط ہوتا ہے کہ وزیراعظم کو فیصلے کرنے پر کوئی اور قوت مجبور کر رہی اور وزیراعظم بااختیار نہیں۔ ایسے میں یقیناً اپوزیشن فیصلہ ساز قوتوں ہی سے رابطوں میں حتمی لائحہ عمل طے کرے گی۔ فوجی عدالتوں کی توسیع کے معاملے پر اقتدار کی غلام گردشوں میں مانیٹرنگ کا کوئی پارلیمانی میکنزم تشکیل دے کر حسب سابق ہی آگے بڑھا جائے گا۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر اٹھارہویں آئینی ترمیم پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے پارلیمنٹ کا بااختیار ہونا ہی شک و شبے میں رہا ہو تو پارلیمانی مانٹرنگ کس حد تک کارگر رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).