ایدھی کی آنکھیں


عبدالستار ایدھی کے پاس دو آنکھیں تھیں، وہ بھی دان کر گئے۔ یہ آنکھیں نہیں ہیں۔ یہ نور کا استعارہ ہیں۔ یہ دور تک دیکھنے اور دیر تک دیکھنے کا ایک حربہ ہیں۔ یہ نگاہ ہے۔ قلندر کی نگاہ۔ قلندر کی یہ پراسرار نگاہ خبر رکھنا چاہتی ہے کہ

’میرے بعد میرے یتیم بچوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے‘۔

دراصل !

ان آنکھوں میں بسے کچھ خواب ہیں اور ٹھہری ہوئی ایک نظر ہے۔ کوئی نون میم راشد ہو جو یہ خواب اٹھائے اور گلی گلی صدا لگائے

’خواب لے لو خواب‘

کوئی صاحب نظر ہو جو ایدھی کی آنکھوں سے نظر کی کچھ خیرات لے کر ان کماں بدست جوانوں میں بانٹ دے جو نفرت کی بلند فصیلوں پہ کھڑے ہیں۔

مگر !

ہم جیسے غفلت شعار صدا سن پائیں گے نہ خیرات کیلیے قطار میں لگ پائیں گے۔ جو کان دھریں گے اور خیرات لیں گے اپنا ہی مقدر سنواریں گے۔ وہی بات جو اقبال نے کہی تھی

’نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘

جانے یہ آنکھیں کس کے نصیب میں آئیں گیں؟ کاش یہ آنکھیں باری باری عصبیت کے ہر معزز سودا گر کے نصیب میں آئیں تاکہ وہ پل دو پل کیلیے آسمان اور زمین کے بیچ بسنے والے انسان کو ایدھی کی آنکھ سے دیکھ سکیں۔

خدا نہ کرے !

جو آنکھیں بوڑھا درویش اور ناخواندہ عالم دان کر گیا ہے ان کے مقدر میں سوائے اشکوں کے اور کچھ نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments