اے دھوپ تیری خیر ہو!


اے دھوپ، میری پیاری دھوپ، اب میری جان میں جان آئی ہے جب میں تیرے آسرے باہر نکل کر آن بیٹھا ہوں۔ میں رات سے اکڑا ہوا تھا۔ شیشے کی بڑی والی کھڑکی فیشن کے حساب سے تو بہت اچھی ہوتی ہے لیکن گرمی، سردی رول کے رک دیتی ہے اور یہ تجھے معلوم ہے۔ ساری گرمیاں آندھی اور بارش سے بچنے کے لیے اس کے شیشے بند رکھے اور ساری گرمیاں مٹی اور پانی کہیں نہ کہیں سے چھن کے اور رس کے اور آنکھ بچا کے اندر آتا رہا۔ ساری سردیاں وہ شیشے ٹھنڈی ہوا کے خوف سے بند رہے اور سرد برفیلی ہوا صبح تین بجے کے بعد پورا کمرہ برف خانے میں بدلتی رہی اور تیرا عاشق زار پلسیٹے مارتا رہا، کروٹوں پہ کروٹیں بدلتا رہا۔

تو جب کمرہ اتنا ناقابل بیان اذیت ناک بن جاتا ہے تو اس وقت میں تیرا ہی تصور کرتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں کہ اس کالے اور منحوس ٹھنڈے اندھیرے سے کب نجات ملے گی۔ میں ایک ایک منٹ کا حساب لگاتا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ تیری پہلی جھلک کب دکھائی دے گی اور پھر دھند ہو یا نارمل موسم، جب تیری پہلی کرن دکھائی دیتی ہے تو یہ دل خوشی سے جھوم جھوم اٹھتا ہے۔ اس وقت میں سورج مکھی کا پھول بن کے نئے سرے سے پیدا ہونا چاہتا ہوں۔

میرا دل چاہتا ہے کہ جدھر تیرا رخ ہو ادھر میرا رخ ہو، جہاں تو جائے ادھر میں تیرا رستہ دیکھوں، جدھر تو مجھ پہ چھا جائے ادھر میں نہال ہو کے منہ تیری طرف کر لوں اور تجھے دیکھتا دیکھتا ایک مطمئن سی زندگی گزار کے مرجھا جاؤں اور میرے بیجوں کا پھر بھلے سے تیل نکلے یا انہیں طوطے کھائیں، ایسے گزرے مگر کیسے گزرے!

یقین کر، نہ جانے وہ کون ہوتے ہوں گے جو تجھ سے پناہ مانگتے ہوں گے، جو تجھے برا بھلا کہتے ہوں گے، جنہیں تو پسند نہیں ہو گی، میرے جیسوں کی تو جان ہے بھئی تو! یہ تو سردیوں کی بات تھی، تیری ضرورت تیرے فقیروں کو گرمیوں میں بھی رہتی ہے۔ تو تو جانتی ہے کہ اب گھر گھر اور دیوار و در جو ہیں وہ ائیر کنڈیشنر سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان کا بس چلے تو کپڑوں جوتوں میں بھی اے سی لگوا لیں۔ ایک اے سی آسمان میں لگوائیں اور ایک چلر سورج کے منہ کے اوپر رکھ دیں۔

تو جب تیرے یہ دیوانے پوری دنیا میں بھرے اے سیوں سے گھبرا کے باہر نکلتے ہیں اور ان کے جسموں کو تو گرمائش دیتی ہے اور انہیں اپنی بھرپور آغوش میں لے لیتی ہے اور ان کی ہڈیوں کو آرام پہنچاتی ہے اور ان کے مسلز کو راحت بخشتی ہے اور ان کے بالوں میں نمی لاتی ہے اور ان کی آنکھوں کی چمک لوٹاتی ہے تو تجھ سے زیادہ دلربا، دل آرام، دل فریب اور راحت افزا اس وقت کوئی بھی اور محسوس نہیں ہوتا۔ اور اس وقت کے علاوہ بھی اے دل نواز، تجھ سے بڑھ کر دل گداز کون ہو گا؟ ہو ہی کون سکتا ہے؟

تو صبح آتے ہوئے کیسے کیسے نظارے کرتی ہو گی۔ کبھی تجھے سائیکل پہ سوار کانپتا ہوا چوکیدار نظر آتا ہو گا جو تیز تیز پیڈل مار کے سردی بھگاتا اور واپسی کے فاصلے کم کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہو گا۔ کبھی تجھے رکشے اور ویگن چلانے والے نظر آتے ہوں گے جن کے اپنے بچے رل کھل کے آس پاس والی دکانوں یا شاید ورکشاپوں میں پہنچ جاتے ہوں گے اور وہ امیروں کے بچے وقت پر سکولوں میں پہنچانے کی خاطر خالی پیٹ سگریٹ پیتے سواریاں دوڑا رہے ہوتے ہوں گے۔

کبھی تجھے وہ معصوم لڑکیاں تیز تیز قدم اٹھاتی گھروں کو جاتی نظر آتی ہوں گی جنہیں پیٹ کا دوزخ بھرنے کو جسم کی آگ جلانی پڑتی ہے۔ کیا تجھے معلوم ہے کہ دن کے ٹائم وہ تجھ سے بھی نظریں نہیں ملانا چاہتیں؟ واحد وہ مخلوق ہے کہ جو تجھے حق پر پسند نہیں کرتی کہ تو ان کی شکلیں محلے داروں کی پہچان میں لے آتی ہے۔ کبھی سبزیوں اور پھلوں کے ہول سیل آڑھتی تجھے سونے کے لیے واپس جاتے دکھائی دیتے ہوں گے کہ ان کا دھندا اور منڈیاں تیرے نکلنے تک عموماً ختم ہو جاتے ہیں۔

اور ہاں، تجھے وہ ننھے برگر بچے بھی ضرور نظر آتے ہوں جو چھ بجے صبح سے سکول جانے کی خاطر گھروں سے نکل کر ماؤں کے ساتھ گیٹ پہ کھڑے ہوتے ہیں اور انہی ویگن یا رکشے والوں کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں، کل ملا کر ظالم کون ہوا؟ شاید سکول والے، جو وہ اپنا وقت دس بجے کا رکھ لیں تو شاید ساری دنیا کو سکون آ جائے۔

جس دن تو نہ آئے اس دن معلوم بھی ہے کیا ہوتا ہے؟ ساری کائنات پہ اندھیرے پھیلے رہتے ہیں۔ بادل ایک دوسرے کے پیچھے دوڑتے خرمستیاں کرتے ہیں لیکن کم بخت اپنے آپ کو ہی اچھے لگتے ہوں گے، فقیروں کے تو بس دل جلانے کا سامان بنا رہتا ہے۔ درخت اور پودے کانپتے کھڑے سارا دن تیری راہ تکتے رہتے ہیں۔ مٹی انتظار کرتی ہے کہ رات پڑی ہوئی اوس سکھانے کے لیے تو کب آئے گی اور تو آ ہی نہیں رہی ہوتی، تیری بھی خیر ٹیکنیکل مجبوری ہے۔

چیونٹیاں تیرے انتظار میں اپنے بلوں کے اندر دم سادھے پڑی رہتی ہیں۔ تو اپنا جلوہ دکھاتی ہے تو وہ غریبنیاں بھی کوئی دال روٹی کے چکر میں زمین کے اوپر آتی ہیں، ورنہ سردی نے ان کا بھی مکو ٹھپا ہوا ہوتا ہے۔ گھاس تک عجیب بے رنگ سی لیٹی ہوئی ہوتی ہے، تو آتی ہے اور پکے پیری جب ہر جگہ چھا جاتی ہے تو گھاس کا رنگ بھی سلیٹی سے ہرا ہو جاتا ہے، تو شہزادی ہے بابا، تو سب کچھ ہے!

تو ان کی دوست ہے جن کا دوست کوئی نہیں ہے، تو ان کا گھر ہے جن کا گھر کوئی نہیں ہے، تو ان کی چمک ہے جو اجڑے پجڑے ہوئے ہیں اور تو ان کا اجالا ہے جن کے اندھیرے نہیں ہٹتے۔ تو آتی ہے تو سات رنگ مل کے چھیالیس ارب رنگ بھی بنا سکتے ہیں اور جو تو آنا چھوڑ دے تو سارے رنگ کالے میں غرق ہو جائیں۔ تو ہمارے پھول کھلاتی ہے، تو ہماری فصلیں پکاتی ہے، تو بے وقت کی بارشیں بھگاتی ہے، تیرے ہاتھوں دھند کا بیڑہ غرق ہوتا ہے، تو ہمارے کپڑے سکھاتی ہے، تو ہماری انگڑائیوں میں طمانیت اور چہروں پہ سرخی لے کر آتی ہے۔

اے سنہری تیرا کون کون سا احسان گنواؤں کہ تو وہ ہے جو ہے تو سب کچھ ہے اور جو نہیں ہے تو بس ایک بے سکونی ہے، ایک اداسی ہے، ایک پریشانی ہے اور اندھیارے ہی اندھیارے ہیں۔ تو زندگی ہے۔ تیری ہی وجہ سے دنیا کے سارے میلے ٹھیلے ہیں، رونق ہے۔ آج تک کوئی ایسا تیوہار نہیں ہوا کہ جس میں تیری موجودگی ضروری نہ ہو، ہر کلچر کے ہر سیلیبریشن کا تو لازمی حصہ ہے۔ بسنت تجھ سے ہے، عیدیں تیری روشنی میں آتی ہے، تو نکلتی ہے تو کرسمس ہوتا ہے، تو آئے تو بیساکھی ہوتی ہے اور تیرے ہی آنے کے ساتھ ہر عقیدے والا اپنی عبادتیں شروع کرتا ہے تو تیرے جانے کے ساتھ وہ سب کچھ بھی غروب ہونے لگتا ہے۔

گزارش یہ ہے میری جان کہ دسمبر، جنوری میں تھوڑا جلدی نکل آیا کر، نیز روز کے روز اپنا چہرہ دکھا جایا کر۔ ان دنوں اپنے یہاں نہ گیس آتی ہے نہ بجلی آتی ہے، کوئلے روز جلائے نہیں جاتے، ہمیں جو منہ کالا ملنا تھا وہ ایک ہی مرتبہ ملا جا چکا ہے۔ اب تیرا ہی سہارا ہے کہ تو آئے گی تو جسم میں کچھ جان دوڑے گی ورنہ فقیر دنیا جہان سے اوازار کمبل منہ تک اوڑھے اپنی کٹیا میں پڑا رہے گا۔ تو یقین کر کہ تیرے بغیر ایک نارمل دن چھتیس گھنٹے کا ہو جاتا ہے اور تو آئے تو وہ سکڑ کر چوبیس کی طرف لوٹ آتا ہے۔

آج تو موجود ہے تو اپنی عیاشی ہے۔ ایک قمیص ہے ایک پائجامہ ہے، ہوائی چپل ہے، کھلی فضا ہے، کوے بولتے ہیں، چڑیاں چہچہاتی ہیں، کوئل شاخوں پہ جھولتی ہے، ساتھ والوں کی بطخیں سکون سے گرمی کا لطف لیتی ہیں، کتے خوش باش ٹہلتے ہیں، مالی کیاریوں میں لیٹے ہیں، لڑکے بالے فٹ بال اور کرکٹ کھیلتے ہیں، جہاں کئی روز سے کپڑے میلے تھے وہاں آج لانڈری ہوتی ہے، دنیا عیش کرتی ہے اور فقیر تیری تعریف میں یہ چار لفظ لکھنے بیٹھا تھا، اٹھا ہے اور تجھے دعائیں دیتا جاتا ہے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain