حرمان نصیبی اب بھی قائم


سال بدلا، انداز بدلا نہ بدلی تو قسمت! 2007 میں پاکستان میں % 34 لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ 2008 میں پاکستان میں آمریت کا سازٹوٹا اور جمہوریت نے ایک عرصہ بعد کھل کر سانس لیا۔ لوگوں کی توقعات بڑھی اور یوں لگا کہ اب ان بے قصوروں کی بھی فریاد سنی جائے گی۔ بے نظیر بنا اور بعدازاں پی پی کی حکومت نے خواتین کو ہنر سکھانے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔ پنجاب میں چونکہ ن لیگ کی حکومت تھی تو وہاں بھی بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔

غریب کے لیے سستی روٹی سکیم اور دیگر منصوبے شروع تو کیے لیکن ان کی دردناک زندگی میں راحت کے کیے کچھ نہ کیا گیا 2009 میں یہ شرح % 36 ہوگئی۔ وقت کے ساتھ درد کم ہوا نہ ہی شرح غربت۔ 2012 میں یہ خوفناک اذیت مزید بڑھی اور وطنِ عزیز کے % 38 لوگ اس کی تحویل میں تھے۔ عام انتخابات میں ن لیگ نے وفاق میں حکومت بنائی اور پھر ملک میں بڑھتی ہوئی غربت کے بارے میں کچھ نہیں کیا گیا یوں 2015 میں یہ شرح بڑھ کر % 39.0 ہوگئی۔

آج ہم 2019 میں موجود ہیں 2018 میں نومبر میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق یہ شرح % 40 ہوگئی ہے۔ عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی شہری آبادی کی نسبت دیہی آبادیوں میں شرح غربت دگنی ہے۔ عالمی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غریب وہ ہے جو دن کا دو ڈالر یا پاکستانی ڈھائی سو روپے روزانہ کماتا ہو اور غریب تر یا خطِ غربت سے نیچے زندگی وہ گزار رہے ہیں جو دن کا سو روپے بھی نہیں کما سکتے۔ دنیا میں لوگ تیزی سے مڈل کلاس میں شامل ہوئے ہیں اور یہ شرح وقت کے ساتھ بڑھے گی لیکن پاکستان میں یہ گنگا الٹی ہے۔ حال ہی میں جاری ولڈ بنک کے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غریب اور امیر کے درمیان فرق بڑھا ہے۔ دیہات میں % 80 لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

پاکستان میں پانی کی فراہمی صحت و صفائی اور غربت دت متعلق ایک جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں % 62 % آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ سندھ کا % 30 کے ساتھ دوسرا خیبرپختونخوا کا % 15 کے ساتھ تیسرا اور پنجاب کا % 13 کے ساتھ چوتھا نمبر ہے۔ پاکستان میں سب سے کم شرحِ غربت ضلع ایبٹ آباد میں محض % 0.8 ہے جبکہ سب سے زیادہ متاثر ضلع واشک ہے، جہاں شرحِ غربت % 73.5 ہے اور پاکستان کے چھٹے امیر ترین شہر لاہور میں شرحِ غربت 2.9 فیصد ہے۔

بھوک و افلاس کے ڈیرے! PSSP کے مطابق دیہاتوں کی صورتحال زیادہ متاثر اور مخدوش ہے اور توجہ طلب ہے۔ انٹرنیشنل فوڈ ریسرچ انسٹیٹوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے انتہائی بھوکے 30 ممالک میں شامل ہے۔ 2014 میں اس وقت کے وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے دعوا کیا تھا کہ حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے کمیٹی بنائے گی اور مہنگائی پر جلد قابو پا لیا جائے گا مگر تمام دعوے دعوے ہی رہے عملاً کچھ نہیں کیا گیا۔

اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر غربت کو ختم نہ کیا گیا تو ہم بہت سے مسائل سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکیں گے۔ یہ % 40 آبادی وہ ہے کہ جن کو جمہوریت یا آمریت کے آنے جانے سے کوئی سروکار نہیں۔ ان لوگوں کے بچے نہ تو اسکول جا پاتے ہیں اور نا ہی تعلیم حاصل کرنے کی ان میں خواہش پنپتی ہے۔ ان کو تو یہی کافی ہے کہ دو وقت کی سوکھی روٹی میسر آجائے۔ اب ایسے میں آپ جتنی مرضی تبدیلی کی بات کر لیں یا بظاہر لے بھی آئیں، اس سے کچھ نہ بدلے گا۔

پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے آنے سے پہلے اور آنے کے بعد اس مخصوص آبادی و طبقے کے رہن سہن میں تبدیلی لانے کے بہت سے دعوے کیے۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم متعرف کروائی گئی۔ مگر ابھی اس پر عملاً کام ہونا ہے پر یہ مخصوص آبادی بہت سی امیدیں لگا کر چکی ہے۔ اور یہ بھی کسی حد تک بات درست ہے کہ یہ % 40 آبادی اس اسکیم سے مستفید نہیں ہوسکتی۔ خدشہ یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر کچھ خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گیے تو وہ وقت دور نہیں جب غربت کی شرح مزید بڑھ جائے گی۔

پی ٹی آئی کی حکومت بھی تھیک اسی طرح غربت کی شرح میں اضافہ کی مطعون ٹھہرے گی جس طرح گزشتہ حکومتیں۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک لائحہ عمل طے کر کے چلے، مہنگائی پر قابو رکھے تاکہ مزید لوگ بھک کہ ہاتھوں اپنے پچے یا ایمان نہ بیچیں۔ ان کے لیے بھی کوئی غریب دوست اسکیم متعارف کرائی جائے جس سے ان کی چھتیں بنیں اور ان کے روزگار کا بندوبست کسی صورت بھی کیا جائے۔ یاد رہے کہ حقیقی تبدیلی بناد سے ہی آتی ہے اور یہ 40 فیصد لوگ اس ملک کی بنیاد ہیں۔ ان کی زندگیوں میں تبدیلی ہی ملک کی حرمان نصیبی بدل سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).