کیا برائی بھیانک ہے؟


لاہور کے عجائب گھر کے داخلی راستے پر تعینات سرمئی رنگ کے انسانی اور حیوانی ساخت کے حامل مخلوطی مجسمے کو عوامی احتجاج اور ہائیکورٹ کے حکم پر ہٹا دیا گیا۔ اس مجسمے کو سوشل میڈیا پر ’الومناٹی‘ ، ’ڈرٹو‘ یا ’شیطانیت‘ کے ساتھ تشبیہ دی گئی۔ موقع کی مناسبت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک خاتون وکیل نے بھی ہائیکورٹ میں رٹ دائر کردی کہ کہ اس مجسمے کی کوئی تاریخی، سائنسی، فنی، ثقافتی یا تعلیمی اہمیت نہیں ہے اور عجائب گھر کے داخلی راستے پر اس ’شیطانی مجسمے‘ سے منفی تاثر جاتا ہے۔

اس بحث سے قطع نظر کہ مجسمہ بنانے والے کی نیت کیا تھی اور وہ کیا پیغام دینا چاہتا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بدی کی طاقتیں بھیانک اور بد صورت ہیں؟ ہم میں سے اکثر افراد بدصورتی، بد صورت اشیا اور بدصورت جگہوں سے ڈرتے ہیں۔ لیکن بدصورتی کیا ہے؟

اگر چہ یہ ایک تاریخی کشمکش ہے جس میں باقی اشیاءکی مانند خوبصورتی اور بدصورتی بھی کوئی قدرتی عمل نہیں بلکہ ایک سیاسی اصطلاح ہے جسے مختلف ادوار میں حکمرانوں نے اپنی جلد کی رنگت اور خدوخال کو شاعروں اور ادیبوں کے ذریعے مثالی قرار دلوا کر عام لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا رکھا۔ نوآبادیاتی دور میں دنیا کو سفید اور کالی دنیا میں بانٹ دیا گیا۔ سفید رنگ خوبصورتی جب کہ سیاہ رنگ بد صورتی کی علامت بن گیا۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس رنگ کو برائی، گناہ اور غیر اخلاقی قدروں سے جوڑ دیا گیا۔

افریقی دانشور فرانز فینن کے مطابق سفید رنگ تہذیب، سچائی اور خالص کا نعم البدل بن گیا۔ انگریزی لغت پر نظر ڈالی جائے تو سفید کے ہم معنی 134 الفاظ ہیں (Roget ’s Thesaurus)

جن کے مترادفات زیادہ تر مثبت ہیں جبکہ اس کے برعکس سیاہ کا مطلب گندہ، غلیظ اور ناکارہ جیسے انگریزی الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ مزکورہ بالا لغت میں اس کے 120 مترادفات ہیں اور تمام کسی نہ کسی منفی پہلو کو ظاہر کرتے ہیں۔

آر کے نارائن کے انگریزی ناول ویٹنگ فار مہاتما میں بھی یہ کیفیت نظر آتی ہے، جب ایک انڈین کردار سری رام اپنی مرحومہ ماں کی تصویر دیکھ کر خواہش کرتا ہے کہ کاش میری ماں کے بھی ملکہ برطانیہ کی طرح گلابی رخسار ہوتے۔

نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد بھی آج تک ہمارے ہاں کلموئی ( کالے منہ والی) ایک گالی ہے۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں سفید رنگ والے افراد اقلیت میں ہیں۔

اب دوبارہ مجسمے کی طرف پلٹتے ہیں اگر اسی طرح عجایب گھر کے داخلی راستے پر سفید رنگ کا ایک تصوراتی انسانی مجسمہ استادہ کیا جاتا جس نے ایک سفید یا سبز رنگ کی چادر پہنی ہوتی، ہاتھ میں ایک تسبیح ہوتی، آنکھوں میں سرمہ لگا ہوتا تو کیا کسی کو اعتراض ہوتا؟

اگر ناقدین کی بات مان بھی لی جائی کہ یہ ایک شیطانی مجسمہ ہے اور دجالی قوتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ تب بھی یہ مجسمہ ہمارے ذہنوں میں بدی کو ابھارتا نہیں کیونکہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں پر ایسی شکلیں نفرت اور حقارت تو پیدا کرسکتی ہیں لیکن ستایش نہیں۔ غور کیجیے کہیں مجسمہ ساز نے ہمارے اندر برائی سے نفرت پیدا کرنے کے لئے تو مجسمہ نہیں بنایا یا پھر کہیں اس نے ہماری حیوانی اور انسانی جبلت کی اتنی کریہہ شکل پیش تو نہیں کی کہ ہم سے دیکھی نہیں گئی اور ہم نے آئینہ توڑنے پر ہی اصرا ر کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).