مجھے تم سے محبت ہے۔ ۔ ۔


ہم دونوں الٰہ آباد کے اکثر مسلمان خاندانوں کی طرح جوائنٹ فیملی والے فرسٹ کزن تھے۔ عمر میں دوسال کا فرق تھا مگر اسکول میں ہمارا داخلہ ایک ساتھ ہوا، پورے اسکول میں ایکدوسرے کی جان پہچان کے بس ہم ہی تھے۔ ہرروز اسکول جاتے وقت ایکدوسرے کا خیال رکھنے کی تلقین کی جاتی۔ وہ عادتا میرے ساتھ رہاکرتی اور میں مجبورا۔ ٹفن میں جلدی ختم کرلیتا تھا اور پھر اس کی طرف دیکھتا رہتا اور اس دوران وہ اپنا ایک پراٹھا بھی پورا نہ کھا پاتی۔ شاید دو سال بڑے ہونے کا لحاظ رکھتی تھی اس لیے ہمیشہ اس کے پاس میرے لئے کچھ نہ کچھ بچ ہی جاتا تھا۔

وقت گزرتا رہا۔ ہم اسکول میں ساتھ پڑھتے، ساتھ کھیلتے اور گھر آکر ہوم ورک کرنے ایک ساتھ ہی بٹھائے جاتے۔ پڑھنے لکھنے میں تو دونوں میں خاص فرق نہ تھا مگرمزاج کا فرق اللہ کی پناہ۔ میں بلا کا شرارتی اور وہ ہمیشہ کی سلجھی ہوئی۔ کیا مجال کہ ڈرائنگ باکس کا کوئی رنگ کسی غلط خانے میں رکھ اٹھے اور ادھر ہفتہ نہ گزرتا کہ میرے تمام رنگ، رنگ برنگے دوستوں میں تقسیم ہوجاتے۔ باکس تو پہلے ہی دن کسی قریبی کوپسندآجاتا تھا۔

میری ہینڈ رائٹنگ اور ڈرائنگ اچھی تھی جبکہ وہ رنگ بڑی نفاست سے بھرتی تھی۔ میں دونوں کی ڈارائنگ بناتا وہ دونوں میں رنگ بھرتی۔ اس کی لکیریں میں جان بوجھ کر ٹیڑھی کردیتا مگر رنگ بھرتے وقت ترچھی لکیریں سنبھال لینے کا ہنر اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ وہ ہرکام وقت پر کرتی اور میں ہمیشہ آخری لمحے میں۔

میں ذہین ہونے کے ساتھ بلا کا کاہل تھا اور وہ معمولی ذہن کی ایک سلجھی ہوئی لڑکی۔

کہتے ہیں ہر لڑکی میں مامتا ہوتی ہے اور ہر عورت محبتوں کا سمندر ہوتی ہے بس ان فطرت کی ترنگوں کو مناسب ڈھنگ سے چھیڑنا ہوتا ہے پھر جو ساز نکلتا ہے اس میں صنف نازک کے وجود کا تار تار بسا ہوتا ہے۔

جلد ہی مجھے اس بات کا احساس ہوگیا کہ میں اسے ستاتا ہوں مگر وہ میری شکایت نہیں کرتی، میں ڈانٹ دیتا ہوں مگر وہ برا نہیں مانتی۔ میرے اچانک بھاگ کر جانے پر میرا سارا بیگ بکھرجاتا ہے لیکن واپس آنے پر سمٹا ہوا ملتا ہے مگر تیز طرار بچپن کی قلابازیاں ان نزاکتوں پہ غور کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی تھیں۔

وقت نے کروٹ لی اور ہماری اسکولنگ تمام ہوئی۔ تایا ابو اسے مزید پڑھانا چاہتے تھے اور دادا اسے تنہاکسی انجان کالج میں بھیجنا نہیں چاہتے تھے بہرحال بزرگوں کی ایک طویل مشورت کے بعد ہمارا داخلہ ایک ہی دن ایک ہی کالج میں کرادیا گیا۔ اس خالص مشرقی اعلان کے ساتھ کہ گریجویشن مکمل ہوتے ہی حیدر ماسٹرز کی تیاری کرے گا اور مہوش کی شادی کردی جائے گی۔ ان دنوں انجینئرنگ اور مینجمنٹ کی جگہ بی ایس سی ایک تیس مارخاں کورس ہوا کرتا تھا اس لیے میں نے سائنس لی اور اس کو بی اے چُنوادیا گیا۔ تین سال اسی طرح پر لگا کر اڑے جیسے اسکول کے دن پلک جھپکتے گزرے تھے۔ فائنل ایر امتحانات کی تاریخیں نکلیں اور ہم کتابوں میں کھوگئے۔

اس کا مصنوعی غصے سے ڈانٹنا اور پیار سے سمجھانا بدستور جاری رہا۔ یہاں اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ میں پڑھائی میں ضرور تیز تھا مگر اس کے سگھڑپن اور نفاست سے مار کھاجاتا تھا۔ میں صرف امتحان کی رات پڑھ کر بھی پاس ہوسکتا تھا مگر ایڈمٹ کارڈ، کیلکولیٹر، پینسل پاؤچ اور رائٹنگ پیڈ میرے اٹھنے سے پہلے میرے سرہانے رکھ دینا صرف اسی کے بس کی بات تھی۔

امتحان کے دوران ہی امی نے خوشخبری دی کہ مہوش تو پرایا دھن ہوگئی بھئی نئی دہلی سے اس کے ماموں کے لڑکے کا رشتہ آیا ہے اور سب کو پسند بھی ہے۔

آخری امتحان پانچ دن بعد تھا جب اس نے میرے کمرے میں آکر کہا حیدر یہ فائل رکھ رہی ہوں اس میں ”ماؤ کے سوشل نظریات اور شمالی ہندوستان“ پہ میرا تنقیدی آرٹیکل ہے سبمٹ کرنے سے پہلے سوچا تمہیں دکھا لوں دھیان سے پورا پڑھنا اور کوئی گرامیٹیکل یا لاجیکل نقص ہو تو کل فیڈ بیک دینا۔ ظاہر ہے وہ بورنگ آرٹیکل کسے پڑھنا تھا۔ میں نے فائل کا عمدہ سجاوٹ والا دیدہ زیب کَور یونہی دیکھا اور کہیں رکھ دی۔ اگلے دن اس نے مجھے بالوں میں ہاتھ پھیرتے گھر سے نکلتے وقت پکڑ لیا۔

حیدر کیا ہوا تم نے بتایا نہیں کیسا تھا آرٹیکل؟

”ہاں آا اں۔ ٹھیک تھا“ میں گڑبڑا کر حسب دستور اگلے جواب کی تیاری کرنے لگا

”پورا پڑھا بھی؟ اس کے لہجے کی مایوسی چہرے پر پھیلتی چلی گئی

”اس میں تھا ہی کیا پڑھنے لائق“ میں نے لاپروائی سے کہا تاکہ وہ مزید سوال نہ کرے۔

حربہ کارگر رہا اور وہ بنا کچھ کہے مڑگئی۔

امتحانات ختم ہوئے اور مجھ سمیت سارا خاندان اس کی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔ پھر وہ مانجھے بیٹھ گئی اور مجھے رزلٹ سے زیادہ اس بات کی فکر تھی کہ اس کو گفٹ کیا دوں۔ میں ان چیزوں میں ہمیشہ کمزور رہا ہوں۔ نزاکت مجھے چھو کر نہ گزری تھی۔ کسی کے لئے جان قربان کرسکتا تھا مگر قربانی کے طریقے سے ذرا بھی واقف نہ تھا۔ کزنس کی مدد سے پرفیوم سیلکٹ کیا پھر خود پر غصہ آیا کہ یہ بات میرے دماغ میں کیوں نہ آئی کہ خوشبؤوں میں گھری رہنے والی مہوش کے لئے یہ بھی ایک عمدہ تحفہ ہوسکتا ہے۔

ڈبے کی پیکنگ مجھ سے بہتر شاید ہی کوئی کرسکتا مگر اب عمدہ کاغذ کے لئے بازار جانا تھا اور اظہارِ لیاقت کو بے تاب میرے اندر کے کلاکار کے پاس وقت نہیں تھا۔ الماری کھولی، بستر الٹا، کتابیں پلٹیں میز کی دراز میں جھانکا مگر کچھ ہوتو ملے خدا نے دل رکھا اور مایوسی کے آخری لمحے سے پہلے وہ خوشنما فائل نظر آگئی جس میں اس کا آرٹیکل رکھا ہوا تھا۔

بلا اجازت پھاڑوں کیسے؟ پھر کچھ خیالات یکے بعد دیگرے ذہن میں آئے

”اس کی سبمیشن ڈیٹ تو نکل چکی اور اسے بھی پرواہ نہیں تو اب کس کام کا؟

”مگر پھر بھی ایک بار پوچھنا چاہیے“

”آخر ایک آرٹیکل اتنا سجانے کی کیا ضرورت ہے؟ مارکس تو ظاہر ہے الفاظ پر ملنے ہیں“

یہ آخری خیال میرے ان دلائل میں سے ہے جو ہر غیر قانونی کام سے پہلے میں ضمیر کی عدالت میں پیش کرتا ہوں۔ دلیل عمدہ تھی لہذا جج نے اس محنت سے بنائے ہوئے نفیس کَور کو پھاڑنے کی اجازت دے دی۔ لیکن جب دن خراب ہوتو پوری احتیاط سے پھینکا ہوا موبائل چھ بائی آٹھ کے بستر پہ گرنے کے بجائے دیوار سے ٹکراتا ہے۔ وہی ہوا اور سنبھالنے کے باوجود کَور اکھڑتے ہی پورا مقالہ کمرے میں بکھر گیا۔ اوراق سمیٹتے وقت ایک کم سائز کے سادے کاغذ نے توجہ کھینچ لی جو میرا نہیں ہوسکتا تھا کیوں کہ اس پر دوچار پھول پتیاں یا دس بیس دستخط ضرور ہوتے۔ حتما یہ اسی فائل کا حصہ تھا۔

کاغذ نگاہوں کے سامنے کیا اور گویا کمرے میں اندھیرا چھا گیا۔

”حیدر میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتی مجھے تم سے محبت یے“

ایک لمحے میں ہزاروں واقعات آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے۔ نگاہیں کاغذ پر تھیں اور کان باہر شادی کی تیاریوں کے ہنگامے پر، پرہجوم خیالات کی تاب نہ لاکر میں نے کاغذ والا ہاتھ نیچے کرلیا۔ آنکھیں کچھ دیر حیرت زدہ رہیں پھر بے جھجھک نم ہونے لگیں۔ اچانک ساری کاہلی افسوس میں بدل گئی اور بدن کے ریشے ریشے نے ندامت کی چادر اوڑھ لی۔ کسی دانشور کا جملہ یاد آیا کہ جہالت بھی ایک نعمت ہوتی ہے۔ آج ایک نئے انکشاف پر میرا سالم وجود مہوش کی بے لوث رفاقت یاد کرکے لرز رہا تھا۔ بستر پہ بیٹھ کر میں نے دیوار سے ٹیک لگالی کیوں کہ اب بیٹھنے کے لئے بھی سہارے کی ضرورت تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).