بلوچ چیف جسٹس کا ڈیم


سپریم کورٹ آف پاکستان کے 26 ویں چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ نے سابق چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے فل ریفرنس کورٹ کی تقریب سے اپنے خطاب میں بڑے معنی خیز، بامقصد اور پُرعزم لہجے میں جو الفاظ اور فقرے استعمال کیے ہیں وہ بہت کچھ بتاتے بھی اور چھپاتے بھی ہیں۔ انہوں نے جب یہ کہا کہ میں بھی ایک ڈیم بنانا اور قرض اتارنا چاہتا ہوں۔ وہ ڈیم جھوٹے مقدموں گواہوں اور انصاف میں تاخیر کے خلاف بنے گا۔ انہوں نے بتایا کہ 19 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں اور 3 ہزار میجسٹریٹس ہیں۔

چیف صاحب نے کہا کہ مجھ میں بلوچ خون ہے، میں آخری وقت تک لڑوں گا۔ سول بالادستی کے لئے سویلینز کا احتساب جمہوریت کے استحکام کے لئے لازم اور ملزوم ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میثاق حکمرانی کے لئے صدر مملکت کی زیر قیادت چوٹی کی پارلیمانی عدالتی اور انتظامی قیادت، جس میں فوج اور ایجنسیاں بھی شامل ہوں، میں مباحثہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ زیر التوا مقدمات کو بروقت نمٹانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال میں لانا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لاپتہ افراد اور جبری گمشدگیوں کے قومی وحدت اور ملک کے آئینی انتظام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ججوں کی کمی دور کرنے کی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس صاحب کے پہلے خطاب میں الفاظ کے انتخاب اور استعمال سے بڑی شدت کے ساتھ یہ بات محسوس ہوئی کہ پاکستان کی عدلیہ میں واضح تبدیلی آ چکی ہے۔ اگر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور موجودہ چیف جسٹس کے خیالات میں بہت بڑا فرق ہے سلیم کوثر کے مصرعے میں معمولی ترمیم کے ساتھ کہنا پڑتا ہے

وہ چیف جسٹس کوئی اور تھے یہ چیف جسٹس کوئی اور ہیں

میاں ثاقب نثار صاحب سابق چیف جسٹس افتخار چودھری صاحب کی طرح سوموٹو نوٹس لینے اور میڈیا میں بڑی بڑی سرخیاں بننے کی وجہ سے عوام میں بہت مشہور ہوئے تھے۔ کسی کو دھمکیاں اور کسی کی اشک شوئی اور ہمدردی کا اظہار کرنے کے حوالے سے عوام میں مقبول بھی رہے تھے اور متنازع بھی۔ جناب افتخار چودھری کو تو کوئٹہ بلوچستان کے وکلا اپنی نجی محفلوں میں تھانیدار کا خطاب دیا کرتے تھے۔ موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب نے کہا ہے کہ سوموٹو نوٹس کم سے کم لئے جائیں گے جہاں کوئی حل نظر نہ آئے تب کہیں جا کر سوموٹو نوٹس لیا جائے گا۔ انہوں نے میثاق حکمرانی کے لئے صدر مملکت کی قیادت میں فوج اور ایجنسیوں کے ساتھ مباحثہ ہونا چاہیے جس سے اس بات کا اشارا ملتا ہے کہ وہ ایک ایسا فارمولا طے کرنا چاہتے ہیں جس میں پارلیمنٹ کے ساتھ فوج اور ایجنسیوں کی مشاورت بھی ہو تا کہ ملّی اور قومی مسائل اور تنازعات کو باہمی مشاورت سے مل بیٹھ کر حل کیا جائے۔ یہ ایک بہت ہی مثبت سوچ ہے تا کہ قومی اداروں کے درمیان اختلافات پیدا نہ ہوں جس سے ملک اور قوم دونوں کا نقصان ہوتا ہے۔

لاپتہ افراد اور جبری گمشدگیاں بہت بڑے مسائل ہیں ان کی طرف بھی انہوں نے خصوصی توجہ دی ہے۔ یہ نہایت حساس مسائل ہیں جن پر قومی اداروں کے درمیان شدید اختلافات اور غلط فہمیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں اس لئے اس مسئلے کا بھی اداروں کی مشاورت اور باہمی تعاون سے حل نکالنے کی اشد ضرورت ہے۔ کافی ایسے مسائل یا اشوز ہوتے ہیں جن کا سوموٹو نوٹس لیا جاتا ہے اس حوالے سے افتخار چودھری کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ سوموٹو نوٹسز سے بہت سے بے سہارا اور کمزور افراد اور طبقات کی داد رسی ہوتی ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ افتخار چودھری صاحب نے خواجہ سراٶں کی جنس یا ان کی الگ شناخت اور پہچان کے لئے خصوصی اقدامات کیے تھے اور جناب ثاقب نثار صاحب نے بھی خواجہ سراٶں کے لئے خصوصی اقدامات کے لئے احکامات جاری کیے تھے۔ جو قابل ستائش اقدامات ہیں کہ ان خواجہ سراٶں کو ووٹ کا حق بھی دیا گیا۔

بہت سے مسائل پر حکومت وقت پارلیمنٹ انتظامیہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مختلف ادوار میں اختلافات پیدا ہوتے رہے جن کے ملکی حالات پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو موجودہ چیف جسٹس صاحب نے جناب صدر مملکت کی قیادت میں پارلیمنٹ فوج عدلیہ اور خفیہ ایجنسیوں کے درمیان مباحثے کی جو تجویز دی ہے یہ ایک بہترین تجویز ہے اس پر عمل کرنے سے ملکی اداروں کے درمیان قومی ہم آہنگی کا ماحول بنے گا اور یہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں بہت بہتر ثابت ہوگا۔ چیف صاحب نے جس مخصوص ڈیم بنانے اور قرض اتارنے کا جو عزم اور ارادہ ظاہر کیا ہے اس سے قوم کو ان سے بڑی توقعات وابستہ ہوئی ہیں۔ البتہ انہوں نے پانامہ کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں گاڈ فادر کا جو لفظ استعمال کیا تھا وہ ایک اعلیٰ جج اور منصف کے منصب سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).