متنازع گلگت بلتستان اور آرڈر 2019


سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے گلگت بلتستان کو متنازع علاقہ قرار دیتے ہوئے عوام کو بنیادی آئینی حقوق فراہمی کے لئے آرڈر 2019 کو 14 دن کے دوران نفاذ کا حکم دیا ہے۔ آرڈر 2019 کو گلگت بلتستان کی تاریخ میں اس حوالے سے انفرادیت حاصل ہو گی کہ اس حکم نامے کے ذریعے میں گلگت بلتستان کے عوام کو انصاف کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان تک رسائی حاصل ہو جائے گی اور مستقبل میں عبوری صوبہ بنایا جائے گا۔ جو گلگت بلتستان کے عوام کی دیرینہ مانگ ہے۔

تاہم اس حکم نامے میں عوامی خواہشات کے برعکس ہر قسم کے ٹیکسز وہاں کے عوام پر لاگو ہوں گے اور ان ٹیکسز کے لگانے کا اختیار وفاقی حکومت سمیت گلگت بلتستان کونسل اور گلگت بلتستان کی اسمبلی کو بھی حاصل ہو گا۔ حکم نامے کے ابتدائیہ میں لکھا گیا ہے کہ گلگت بلتستان عبوری صوبہ بنایا جائے گا لیکن تاحال کسی سیاسی جماعت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت نہیں ہے اس لئے وقتی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے اس لیے دو تہائی اکثریت حاصل ہونے تک گلگت بلتستان کا نظام اس حکم نامے کے تحت چلایا جائے۔

گلگت بلتستان کے لئے دیا گیا حکم نامہ ہندوستان زیر انتظام کشمیر کو دیے گئے نظام ( آرٹیکل 370 ) کے قریب تر ہے اور مختصر قانون سازی کے بعد یہ گلگت بلتستان کو وہی حیثیت حاصل ہو جائے گی جو ہندوستان کے آئین میں جموں و کشمیر کو حاصل ہے۔ اس حکم نامے کے مطابق گلگت بلتستان کے شہری پاکستان کے شہری کہلائیں گے لیکن پاکستان کے عوام کو گلگت بلتستان کے شہری نہیں مانا جائے گا۔ اس کے علاوہ حکم نامے میں وہاں عدالتی اصلاحات کے حوالے سے اہم پیش رفت ہو گی جس کے مطابق گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے حوالے سے کمیشن بنایا جائے گا۔

حکم نامے کے مسودے کے مطابق اس کمیشن کے سربراہ سپریم اپیلٹ کورٹ کے چیف جج ہوں گے جبکہ ممبران میں سیکرٹری امور کشمیر، اپیلٹ کورٹ کے سئینر ترین جج، سپریم کورٹ آف پاکستان کا ریٹائرڈ جج جس کو چیف جسٹس پاکستان نامزد کریں گے، وزیر قانون گلگت بلتستان، چیف سیکرٹری جی بی، ممبر بار کونسل جی بی اور جوائنٹ سیکرٹری گلگت بلتستان کونسل ہوں گے اور چیف جج کی تقرری کے لئے اس کمیشن کی سربراہی سیکرٹری امور کشمیر کریں گے۔ حکم نامے کے آرٹیکل 124 میں کہا گیا ہے کہ اس حکم نامے میں ترمیم کا اختیار وفاقی حکومت کو حاصل ہے لیکن وفاقی حکومت کو کسی بھی ترمیم کے لئے سپریم کورٹ سے پیشگی اجازت لینی ہو گی۔

اس سے قبل گلگت بلتستان میں جتنے بھی نظام رائج رہے ان میں گلگت بلتستان کے عوام کو انصاف کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان تک رسائی حاصل نہیں تھی اور مقامی عدالتی نظام پر عوام کو شدید تحفظات تھے کیونکہ سپریم اپیلٹ کورٹ وزارت امور کشمیر کے ماتحت تھی اور وہاں ججز کی تقرری کا اختیار وزیر امور کشمیر کو تھا جس کے لئے اب کمیشن قائم کیا جائے گا۔

گلگت بلتستان کا نظام 1947 سے ابتک کیسے چلتا رہا اس پر مختصر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ گلگت یکم نومبر 1947 کو آزاد ہوا اور بلتستان کے علاقے 14 اگست 1948 تک آزاد ہوئے تاہم یکم نومبر 1947 سے 16 نومبر 1947 تک گلگت کی حیثیت آزاد ریاست کی رہی اور پھر سولہ نومبر کو خیبر پختونخواہ کے انتظام میں لایا گیا جس کے بعد سردار عالم خان کو پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر بھیجا گیا اور ایف سی آر (فرنٹئیر کرائم ریگولیشن) کا نفاذ کیا گیا اور ایک سال بعد بلتستان (سکردو اور دیگر نئے آزاد ہونے والے علاقوں ) کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔

ایف سی آر کے نفاذ کے ڈیڑھ سال بعد 28 اپریل 1949 کو کراچی میں ایک معاہدے (جسے معاہدہ کراچی کہا جاتا ہے ) کے ذریعے اس علاقے کی پرانی حیثیت بحال کرتے ہوئے صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ) کے انتظام سے نکال کر متنازع ریاست جموں کشمیر کا حصہ قرار دیا گیا تاہم ایف سی آر کا خاتمہ پھر بھی نہ ہو سکا اور یہ نظام حکمرانی 1971 تک جاری رہا اس دورانئیے میں ایوب خان نے 1960 میں بی ڈی (Basic Democratic) نظام کے تحت انتخابات کروائے لیکن مقامی حکومت کچھ کام نہ کر سکی۔ 1971 میں ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان سے ایف سی آر کو ختم کیا اور صرف پولیٹیکل ایجنٹ کو باقی رکھا۔

چار سال بعد 1975 میں بھٹو نے نادرن ایریا ایڈوائزری کونسل قائم کی جس میں آٹھ ممبرز گلگت بلتستان سے تھے اور آٹھ وفاق کی جانب سے مقرر کردہ لوگ تھے۔ اس کونسل کا چیف ایگزیکٹو وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کو مقرر کیا گیا تھا۔ بھٹو کی حکومت ختم ہونے کے بعد جب ضیا الحق کا مارشل لا آیا تو نادرن ایریاز کو E زون قرار دیا اور پھر 1981 میں پاکستان سیٹزن شپ ایکٹ کا نفاذ نادرن ایریاز تک کر دیا۔

پھر 1994 میں بے نظیر نے پہلی مرتبہ گورنینس آرڈر دیا جس کے مطابق عدالتی اصلاحات اور دیگر تبدیلیاں ممکن ہو سکیں۔ اس آرڈر کے تحت چیف کورٹ وجود میں آئی اور ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کی پوسٹ وجود میں آئی۔ اس آرڈر کے مطابق چیف ایگزیکٹیو نادرن ایریاز وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات تھا۔ ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کے پاس صرف وہی اختیارات ہوتے جو اسے چیف ایگزیکٹو تفویظ کرتا تھا اس کے علاوہ کسی اختیارات کی تشریح اس گورنینس آرڈر میں نہیں تھی۔

1994 میں شمالی علاقہ جات کے حوالے سے دوسری اہم پیش رفت یہ ہوئی ضیا الحق کی جانب سے سیٹیزن شپ ایکٹ کے شمالی علاقہ جات میں نفاذ کو بنیاد بنا کر شمالی علاقہ جات کی آئینی حیثیت اور حقوق سے متعلق الجہاد ٹرسٹ نامی تنظیم سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کی جس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ شمالی علاقہ جات کے عوام کو آئین پاکستان کے تحت حقوق دیے جائیں یا پھر آئین پاکستان کے تحت نہ کرنے پر سرحد بنائی جائے اور شمالی علاقہ جات کو الگ کیا جائے۔

جس پر 1999 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بنچ نے فیصلہ دیتے ہوئے لکھا کہ شمالی علاقہ جات کے عوام کو آئین پاکستان کے تحت مکمل حقوق شامل ہیں ان کو پاکستان کا شہری مانا جائے۔ سیٹیزن شپ ایکٹ کے تحت وہ ٹیکس دیتے ہیں اس لئے ان کو مکمل آئینی و سیاسی حقوق حاصل ہیں جو پاکستان کے دوسرے شہریوں کو حاصل ہیں۔ عدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ فیصلے کے مطابق چھ ماہ میں اصلاحات لائی جائیں۔

اس فیصلے پر عملدرآمد کے لئے وفاقی حکومت نے 1994 میں دیے گئے بے نظیر حکومت کی جانب سے دیے گئے نظام میں ترامیم کیں تاہم وقتی طور پر ان پر عمل درآمد ممکن نہ ہو سکاکیونکہ ترامیمی ایکٹ کے نفاذ کا اعلان کرنے اس وقت کے وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات مجید ملک 11 اکتوبر 1999 کو گلگت پہنچے، دوسرے دن یعنی 12 اکتوبر کو مشرف مارشل لا نافذ ہو گیا اور مجید ملک کی وفاقی وزیر کی حیثیت ختم ہو گئی جس کے باعث اس ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کا اعلان نہ ہو سکا۔

چونکہ وفاقی حکومت اس ایکٹ کی منظوری دے چکی تھی اس لئے یہ نظام کا حصہ بن چکا تھا صرف عملدرآمد باقی تھا۔ اس ترمیمی ایکٹ کے مطابق شمالی علاقہ جات کونسل کو قانون ساز کونسل کا درجہ دیا گیا اور اس قانون ساز کونسل کو چلانے کے لئے اسپیکر کا عہدہ متعارف کروایا گیا اس کے ساتھ کورٹ آف اپیل (جسے 2005 میں چیف اپیلٹ کورٹ کے نام سے قائم کیا گیا) کی منظوری بھی شامل تھی۔

(خیال رہے کہ 1975 سے 1999 تک نادرن ایریاز کونسل کے اجلاس وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کی زیر صدرات ہوتے تھے ) ۔

1999 میں اس ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد نہ ہو سکا تاہم 2000 میں مشرف حکومت نے اسی ایکٹ میں موجود سفارشات پر عمل کرتے ہوئے قانون ساز کونسل کے لئے ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کے ساتھ اسپیکر کا عہدہ متعارف کروایا اس کے مطابق ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کا کام علاقے کا نظام چلانا جبکہ اسپیکر کا کام کونسل کے امور چلانا تھا اور دو سال بعد 2002 میں ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ بھی متعارف کروایا گیا جو اسپیکر کی غیر موجودگی میں سپیکر کے اختیارات رکھتا تھا۔

کونسل کو 47 مقامی اسبجیکٹ میں قانون سازی کے اختیارات دیے۔ یہ تمام اسبجیکٹ میونسیپلٹی طرز (یعنی میونسیپل کمیٹی کے مکمل اختیارات قانون ساز کونسل کو دے دیے ) کے تھے۔ اس کے بعد مشرف نے 2005 میں کورٹ آف اپیل کو سپریم اپیلٹ کورٹ کا نام دیا جو تین ججز پر مشتمل عدالت ہے۔ دو سال بعد 2007 میں مشرف نے کچھ اوراصلاحات لائیں اور قانون ساز کونسل کو قانون ساز اسمبلی کا نام دیا اس کے ساتھ ہی ڈپٹی چیف ایگزیکٹو کے عہدے کو چیف ایگزیکٹو کا نام دیا گیا لیکن ان اصلاحات میں بھی وزارت امور کشمیر کا تسلط برقرار رہا اور وزیر امور کشمیر اس نظام کے چئیرمین بنا دیا گیا۔

دو سال کے مختصر عرصہ بعد ہی پیپلز پارٹی کی حکومت نے گلگت بلتستان میں آزاد کشمیر کے سیٹ اپ سے ملتا جلتا سیٹ اپ لایا گیا جس میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ساتھ گلگت بلتستان کونسل بھی متعارف کروائی گئی۔ اس نظام کے تحت گلگت بلتستان میں قانون سازی کے ختمی اختیارات وزیر اعظم پاکستان کے پاس تھے۔ 2009 کے حکم نامے میں پہلی مرتبہ گلگت بلتستان میں وزیر اور وزارت کے الفاظ متعارف کروائے گئے (اس سے قبل گلگت بلتستان میں مشیر یا ایڈوائزر ہوتے تھے جن کو چیف ایگزیکٹو نامزد کرتا تھا اور وزیر امور کشمیر منظوری دیتا تھا) ۔

اس حکم نامے کے مطابق گلگت بلتستان کا ڈومیسائل رکھنے والا شخص ہی گلگت بلتستان کا شہری کہلاتا ہے اور پاکستان سیٹزن شپ ایکٹ پر عملدرآمد گلگت بلتستان میں باقی نہ رہا۔ اس نظام میں عدلیہ کے ججز کی تقرری کا اختیار وفاقی وزیر امور کشمیر کے پاس تھا۔ 2009 میں پہلی مرتبہ گلگت بلتستان کو نام ملا اور سرکاری طور پر شمالی علاقہ جات کے بجائے گلگت بلتستان کہا اور لکھا جانے لگا اس کے ساتھ گلگت بلتستان کا یوم آزادی یکم نومبر کو سرکاری طور پر بنایا گیا (اس سے قبل گلگت کا یوم آزادی یکم نومبر جبکہ سکردو میں یوم آزادی 14 اگست کو منایا جاتا رہا ہے ) ۔

اس نظام کو نو سال بعد گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے ذریعے نیا نظام دیا گیا ہے جس میں وہاں کے عوام کو امید تھی کہ گلگت بلتستان کو اندرونی طور پر قانون سازی کے اختیارات ملے لیکن اس حکم نامے کے مطابق گلگت بلتستان کے تمام اختیارات کا منبع وزیراعظم پاکستان ہی رہے۔ اس آرڈر کو گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور فاضل عدالت نے 2018 کے حکم نامے کو کالعدم قرار دیدیا تھا اور گلگت بلتستان بار کونسل نے حقوق کے حصول کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کی جس پر فیصلہ دیتے ہوئے عدالت عظمی نے وفاقی حکومت کی مشاورت سے 109 صفحات پر مشتمل نیا حکم نامہ (آرڈر 2019 ) دیا اور اسے نافذ کرنے کی ہدایت بھی جاری کی ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی تاہم رائے شماری تک گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں۔ فیصلے میں عدالت نے لکھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے اختیارات گلگت بلتستان میں بھی نافذ العمل ہیں، سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود نہیں کیا جاسکتا اور گلگت بلتستان کا کوئی بھی قانون سپریم کورٹ میں چیلنج ہوسکتا ہے۔

اس حکم نامے کے باوجود گلگت بلتستان کے عوام میں ایک ردعمل پایا جاتا ہے اور ان کا خیال ہے کہ یہ حکم نامہ ان کی محرومیاں ختم کرنے کے لئے ناکافی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).