کب تک بربریت سڑکوں پہ ناچتی رہے گی؟


ساہیوال میں ایک بےگناہ خاندان کے وحشیانہ اور ظالمانہ خون ناحق نے رونگٹے کھڑے کر دیے۔ کراچی میں نقیب الله محسود کی ریاستی دہشت گردی میں ہلاکت اور سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کے بعد ریاستی دہشت گردی کے اس اندوہ ناک واقعے نے پورے پاکستانی معاشرے کو دہلا دیا ہے۔ دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں ریاستی عناصر کی جانب سے اس طرح کی بربریت اور وحشیت کا تصور ہی ممکن نہیں۔ کل جب یہ دل دہلا دینے والا واقعا ٹیلیویژن اسکرینوں پر چلنا شروع ہوا تو کوئی ذی ہوش ایسا نہیں تھا جو اس ساری کارروائی کو ریاستی عناصر کی بربریت اور دہشت گردی نہ قرار دیتا ہو، مگر افسوس صد افسوس ریاست کے ان کرتا دھرتاؤں پر ہے کہ وہ میڈیا میں بغیر تصدیق کیے اس سانحے کو فخریہ انداز میں سی ٹی ڈی کی دہشت گردوں کے خلاف بڑی دلیرانہ کارروائی قرار دیتے رہے۔

وزیر اطلاعات فواد چوہدری صاحب بڑے اعتماد سے کہتے رہے کہ کس طرح سی ٹی ڈی کے جانبازوں نے ایک گاڑی میں اپنے عزیزوں کی شادی میں جاتے معصوم و نہتے مرد و زن دہشت گردوں کو ایک سخت حوصلہ شکن معرکے کے بعد جہنم رسید کر دیا۔ شرم آنی چاہیئے تھی فواد چوہدری صاحب کو، اس وقت زمین کیوں نہ پھٹی آسمان کیوں نہ گرا جب ریاست مدینہ کا ایک اہم کرتا دھرتا اس ڈھٹائی سے ریاست کے معصوم رعایا کے اس طرح کے وحشیانہ قتل پر آنسو بہانے، شرمندہ و نادم ہونے اور بےگناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لاکر انہیں نشان عبرت بنانے کی بات کرنے کے بجائے بڑے فاتحانہ انداز میں شہداء کو دہشت گرد قرار دے کر اسے اپنی ریاست کا ناقابل یقین کارنامہ قرار دے رہا تھا۔

کل سے اب تک تحریک انصاف کی ناعاقبت اندیش حکومت بار بار اپنا مؤقف تبدیل کرتی نظر آ رہی ہے۔ کبھی سی ٹی ڈی کی مدح سرائی میں بیان جاری کیا جاتا ہے تو کبھی سی ٹی ڈی کارروائی کو ناقابلِ قبول قرار دے کر اس کے خلاف سخت اقدامات کا عندیہ دیا جاتا ہے۔ سانحہ رونما ہونے کے کچھ ہی دیر بعد واقعے کے اصل حقائق منظر پر آ چکے تھے۔ گاڑی میں موجود خوش قسمتی سے زندہ بچ جانے والے معصوم بچوں نے سارے سانحے کی پول کر رکھ دی کہ کس طرح ان کی گاڑی روک کر ان کے والدین کو بےدردی سے وحشت اور بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ واقعہ رونما ہوتے وقت اس شاہراہ پر موجود کچھ عینی شاہدین نے واقعے کی فوٹیج بنا کے سارے ڈرامے کو ہی بےنقاب کر دیا۔

اس سانحے کے بعد سے ریاستی مؤقف بار بار تبدیل ہوتا رہا کبھی کہا گیا کہ اغوا کار تھے، گاڑی سے بچے برآمد ہوئے۔ پھر کہا گیا کہ دہشت گرد تھے، پولیس پر فائرنگ کردی، جوابی کارروائی میں مارے گئے۔ پھر کہا گیا کہ انٹیلی جنس اطلاعات پر انہیں روکا گیا۔ گاڑی کے شیشے کالے تھے، معلوم نہیں ہو سکا کہ گاڑی میں ذیشان نامی دہشت گرد کے ساتھ فیملی بھی ہے اور گاڑی سے خودکش جیکٹیں اور گرینیڈ برآمد ہوئے ہیں۔

لیکن قرائن یہ بتا رہے ہیں کہ گاڑی کے شیشے کالے تھے نہ ہی کوئی خودکش جیکٹ اور گرینیڈ برآمد ہوئے۔ کل سے اب تک حکومت پنجاب سی ٹی ڈی کی اس دہشت گرد کارروائی کو نہ صرف تحفظ دے رہی ہے بلکہ اس سارے واقعے کو دہشت گردی کا رنگ دے کر اور اسے داعش یا کسی اور دہشت گرد کالعدم تنظیم سے جوڑ کر عوامی ردعمل کو کم کرنا چاہتی ہے۔ پنجاب حکومت کے وزیر قانون راجہ بشارت نے پریس کانفرنس میں پنجاب حکومت کی بےگناہوں کو انصاف دلانے میں دلچسپی اور نیت کا اظہار یہ کہہ کر ہی کردیا کہ کل شہید ہونے والے گاڑی کے ڈرائیور ذیشان کا تعلق گوجرانولہ میں ایک اور مبینہ مقابلے میں مارے جانے والے دو افراد سے تھا اور یہ دونوں دہشت گرد ذیشان کے گھر میں پناہ لیئے ہوئے تھے اور ذیشان کے پاس گاڑی میں دو خودکش جیکٹس اور آٹھ ھینڈ گرینیڈ برآمد ہوئے۔ اس پریس کانفرنس کے دوران راجہ بشارت پنجاب کے صوبائی وزیر کم اور سی ٹی ڈی کے ترجمان زیادہ نظر آ رہے تھے۔

عینی شاہدین نے حکومت پنجاب اور سی ٹی ڈی کے دعوے کو اپنے فوٹیجز اور گواہی سے ہی زمین بوس کردیا کہ شہید ہونے والوں کی طرف سے کوئی مزاحمت ہوئی یا ان کے پاس سے کسی قسم کا کوئی اسلحہ بھی ملا تھا۔ اس سارے دردناک واقعے کا ایک نہایت ہی تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ اس دہشت گرد خونی سانحے کی ایک ایف آئی آر ریاست کی طرف سے کاٹی گئی جس میں اس سارے واقعے کو خفیہ اطلاعات کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے ذیشان کو دہشت گرد نامزد کردیا گیا ۔ جبکہ لواحقین کی جانب سے ایف آئی آر کٹوائی گئی تو اس میں نامعلوم اہلکار نامزد کئے گئے جو حکومتی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے۔

فوٹیج میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح کون نہتے اور معصوم لوگوں پر گولیوں کی برسات کر رہا ہے۔ کس طرح پھولوں سے نازک معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے ان کے والدین کو بھون دیا گیا۔ ساہیوال واقعے نے سانحہ ماڈل ٹاؤن، اور نقیب اللہ محسود کی ریاستی دہشت گردی میں ہلاکت کے واقعات کی یاد تازہ کردی۔ سانحہ ساہیوال میں اگر تحریک انصاف کی وفاقی اور پنجاب کی حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ تکلیف دہ حقیقت کھل کر سامنے آئے گی کہ ریاست مدینہ کے دعویدار کس بےحسی اور بےدردی سے اپنی رعایا کی جان و مال کی حفاظت کا انتظام کئے ہوئے ہیں کہ ان کے قتل عام پر اس بات کا تعین کرنے سے بھی قاصر ہیں کہ آیا یہ ریاستی بھیڑیوں کے ہاتھوں بےگناہوں کے قتل عام کا واقعہ تھا یا ریاستی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے کا واقعہ۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ذمہ داری اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف پر عاید کرتے ہوئے اس وقت کے اپوزیشن رہنما اور آج کی ریاست مدینہ کے خلیفہ جناب عمران خان نیازی صاحب ان کے خلاف معصوم و بےگناہ شہریوں کے قتل کی ایف آئی آر کا مطالبہ کرتے تھے۔ آج دیکھتے ہیں کہ ریاست مدینہ کے خلیفہ جو کہتے تھے کہ اگر ریاست میں کہیں کوئی کتا بھی مر جاتا تھا تو حاکم اپنے آپ کو اس کا قصور وار سمجھتا تھا۔ آج چار بےگناہ انسانوں کے قتل کا ذمہ دار وہ اپنے آپ کو سمجھتے ہیں یا نہیں؟ دیکھتے ہیں کہ وہ آج پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ عثمان بوزدار کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیتے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ جس قتل کا کوئی قاتل نہ ملے اس قتل کا ذمہ دار حاکم وقت ہوتا ہے۔

کاش تحریک انصاف کی حکومت آئیں بائیں شائیں کرنے کی بجائے فوری طور پر اس سانحے کے ذمے دار سی ٹی ڈی دہشت گردوں کی گرفتاری عمل میں لائی ہوتی۔ ریاست کے نہتے بےگناہ شہریوں کے خون ناحق کو دہشت گردوں کی ہلاکتوں سے جوڑنے کی بجائے اسی وقت حالات و واقعات کا ادراک ہوتے ہی اور حقیقت سے آگہی حاصل ہوتے ہی اہلکاروں کی مجرمانہ غفلت کو قبول کر کے ان کے خلاف سخت ترین اقدامات کرتی۔ متاثرہ خاندانوں سے اظہار یک جہتی کرتی، ان کے دکھوں اور تکلیفوں کا مداوا کرنے ان کے زخموں پر مرہم رکھنے، ان کے غم اور رنج کو بانٹنے کی کوئی مخلصانہ کوشش کرتی تو شاید آج اس ذلت و رسوائی اور عوامی نفرت سے بچ جاتی جو اس وقت عوام میں ان کے خلاف شدت سے زور پکڑ رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).