سرکاری بندوقوں کا خوف


سانحہ ساہیوال پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم  ہے لیکن قابل فکر بات یہ ہے کہ سانحہ پہ سانحہ ہوا جا رہا ہے اور ہم سب انہیں روکنے کا مستقل حل تلاش کرنے کی بجائے چند روز سینہ کوبی یا پھر ”قلم زنی“ کر کے خاموش ہو جاتے ہیں اور مختلف اداروں میں موجود بے شرم کالی بھیڑیں خون کی نئی ہولی کے لئے منصوبہ سازی کرنے لگتی ہیں۔ بد قسمتی سے ہم وہ اسلامی ”فلاحی“ ملک بن چکے جس میں سڑکوں پر شہریوں کو سرکاری سنگنیوں سے مارا جانا ایک عام سی بات ہو گئی ہے

ماضی میں وفاقی دارالحکومت کی سڑکوں پر نہ صرف کئی شہری پولیس اہلکاروں کی گولیوں سے مارے گئے بلکہ سابق وزیر اعظم مرحوم محمد خان جونیجو کی گاڑی پر بھی ایک اہلکار نے گولی چلا دی تھی۔ وفاقی دارالحکومت ہو یا پھر پنجاب کا صوبائی دارالحکومت ہو لیکن معصوم شہریوں کو مارنے والی ہمیشہ جے آئی ٹی جیسی رپورٹس تیار کرنے والی” لیبارٹریوں“ کے باعث انصاف سے محروم رہے۔

 سانحہ ماڈل ٹاؤن میں باوردی پولیس اہلکاروں نے نہتے شہریوں پر گولیاں برسا کر دہشت گردوں کا کام آسان کیا تھا۔ مرنے والے 21 افراد ابھی تک انصاف کے لئے بے قرار ہیں لیکن جے آئی ٹی پر جے آئی ٹی بنا کر انصاف کے اعلیٰ ترین ادارے بھی مظلوموں کو تاحال انصاف نہیں دے سکے۔ اس کے بعد کراچی میں ایس پی راؤ انوار نے وردی پہن کر نقیب اللہ جیسے بے گناہ نوجوان کو دہشت گرد قرار دے کر سرکاری اداروں سے داد و تحسین حاصل کی لیکن سوشل میڈیا اور پھر الیکٹرانک میڈیا نے جب تمام رازوں سے پردہ اٹھا دیا تو ایس پی راؤ  انوار وقتی طور پر روپوش ہو گیا۔

نقیب اللہ کے قاتلوں کا سول جج سے لے کر چیف جسٹس آف پاکستان تک کو علم ہے لیکن اندھے قانون کی اندھیر نگری نے انصاف کی فراہمی کے نظام کو چوپٹ راج میں تبدیل کر رکھا ہے ۔ قانون کو اندھا اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے سامنے غریب، امیر، عام آدمی یا سرکاری آدمی کی تمیز کرنے سے قاصر ہوتا ہے لیکن معاشرے کے طاقتور لوگوں نے انصاف اور قانون کو حقیقی معنوں میں اندھا بنا دیا ہے ۔

اندھے قانون کے سامنے کراچی کے پارک میں سرفراز نامی نوجوان کو رینجرز کے اہلکاروں نے بھون کر رکھ دیا تھا سرفراز کے واسطے اور منت تر لے بھی اندھے قانون کی آنکھوں سے پٹی کھولنے میں ناکام رہے اور پھر سرفراز کو قتل کرنے والے اہلکار ورثا کی تسلی کے لئے گرفتار ضرور ہوئے لیکن آج تک سزا نہیں پا سکے۔ نقیب اللہ کیس میں مقتول نقیب للہ کے ورثا ابھی تک انصاف کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں اس دوران راؤ انوار ” باعزت“ ریٹائر ہو کر باعزت شہری کے طور پر نئی زندگی بھی شروع کر چکا ہے۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یہی راؤ انوار جب اے آیس آئی تھا تو اس وقت دہشت پھیلانے والے پولیس اہلکاروں کے اس جتھے میں شامل تھا جس نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادے اور اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا ۔ اس سرکاری قتل کی تہہ تک پہنچنے کے لئے بھی کئی انکوائری کمیٹیاں بنیں لیکن اس قتل کے اصل راز سمندر کی تہہ میں جا کر بیٹھ گئے ۔

پاکستان میں قانون نام کی اگر کوئی چیز ہوتی تو اس وقت بھی قاتلوں کا سرکاری جتھہ تختہ دار تک جا سکتا تھا اور اگر انہیں سزا مل گئی ہوتی تو راؤ انوار کو معصوم لوگوں کا قتل کرنے کا ”لائسنس“ کبھی بھی نہ ملتا اور معصوم نقیب اللہ بھی بچ جاتا۔

گزشتہ برس ہی کراچی میں اینٹی کارلفٹنگ سیل کے اہلکاروں نے انتظار حسین نامی ناجوان کو بے دردی سے سڑک پر قتل کر دیا تھا لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود قاتل پھانسی کی سزا نہیں پا سکے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ لوگ ذاتی دشمنیوں کے لئے یا تو دہشت گردوں کو استعمال کرتے ہیں اور یا پھر پولیس وردی میں چھپے ہوئے بھیڑیوں کو استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان دونوں صورتوں میں اصل قاتل کا نہ صرف چہرہ سامنے نہیں آتا بلکہ وہ اپنے دشمن کا خون اپنی مرضی سے بہانے میں کامیاب ہو جاتا ہے جس کی ایف آئی آر بھی کسی اور کے خلاف ہوتی ہے۔

سانحہ ساہیوال کے پیچھے ایسی کہانی چھپی ہوئی دکھائی دیتی ہے جس میں پردے کے پیچھے بیٹھے ہوئے قاتل نے سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کی بندوقوں کو انہی کے کندھوں سمیت استعمال کیا ہے۔ یہ پہلی اورآخری سرکاری بندوقوں کے ذریعے ہونے والی واردات نہیں ہے یہ وارداتیں ماضی میں بھی ہوئیں اور حال میں بھی انہوں نے معصوم لوگوں کا برا حال کر رکھا ہے اور اگر حکومت نے انکوائری کمیٹیوں پر ہی انحصار کیا تو پھر یقین کر لیا جائے کہ ایسی ہولناک کارروائیاں جاری رہیں گی ۔ انہیں روکنے کا واحد حل یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان حکومتی رٹ قائم کرنے کے لئے فوری طور پر آرڈیننس کے ذریعے قانون بنائیں کہ سرکاری وردی میں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کرنے والوں کے خلاف جے آئی ٹی رپورٹ صرف دس دن میں پیش کی جائے اور اس رپورٹ کی روشنی میں یہ مقدمے فوری انصاف کے لئے یا تو فوجی عدالتوں میں لگائے جائیں اور یا پھر دھشت گردی کی خصوصی عدالتیں زیادہ سے زیادہ بیس دن میں ان کے فیصلے کر دیں۔

بعد ازاں ملزمان کی اپیلوں پر 15 دنوں میں اعلیٰ عدالتیں فیصلے سنائیں اور مزید دس دن میں نظرثانی اپیل کو بھی نمٹا دیا جائے۔ عدالتی حکم نامہ ملنے کے بعد مجرمان کو وہیں پر سرعام پھانسی کی سزائیں دی جائیں جہاں معصوم شہریوں کا قتل کیا گیا۔ ہمارے قانون ساز ادارے اس حوالے سے بلاوجہ کی انسانی ہمدردی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ یہ ظلم ہے کہ سرکاری اہلکار سر عام چوراہوں پر خود ساختہ عدالتیں لگا کر عام شہریوں کو قتل کریں اور جب عدالتیں انہیں سزا دیں تو انسانی حقوق کے نام پر ’پردہ فرما“ لیا جائے۔ قصور کی معصوم بچی زینب کے قاتل کو سرعام پھانسی دی جاتی تو زینب کے بعد کئی اور بچیاں درندگی سے شائد بچ جاتیں لیکن نام نہاد قوانین کے نام نہاد نام لیواؤں نے ایسا نہیں ہونے دیا اور اس کا خمیازہ پورا معاشرہ بھگت رہا ہے

وزیر اعظم عمران خان سرکاری ملزمان کو موجودہ قوانین کے ذریعے عبرت ناک سزا نہیں دے سکتے جبکہ اپنی ”معذور حکومت “ کے ذریعے موثر قانون بنا نہیں سکتے۔ اس لئے عوام میں احساس تحفظ پیدا کرنے کے لئے اور سرکاری غنڈوں میں خوف پیدا کرنے کے لئے عمران خان آرڈیننس کا سہارا لیں۔ آرڈیننس 4 ماہ بعد جب ختم ہو گا تو حکومت مزید چار ماہ اسے دوبارہ زندگی دے سکتی ہے لیکن ان آٹھ مہینوں میں وزیر اعظم ایسا کام کر سکتے ہیں کہ سرکاری بندوق کے ذریعے عوام کا قتل عام بند ہو جائے گا۔ اس وقت سرکاری بندوقوں کا خوف عوام پر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ خوف سرکاری غنڈوں پر منتقل کر کے عوام کو اعتماد بخشا جائے وگرنہ قتل عام کا یہ سلسلہ نہیں رکے گا اور سرکاری بندوقوں کا خوف بڑھتا جائے گا۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat