سانحہ ساہیوال، حکومت کے لیے بہت بڑا سوال؟


1994ء کی بات ہے جب ہم یونیورسٹی کی جانب سے پاکستان ٹور پر جارہے تھے، روہڑی جنکشن سے ٹرین راولپنڈی ایکسپریس میں لاہور جانے کے لیے سوار ہوئے، ملتان سے ایک ریٹائرڈ فوجی افسراوران کی فیملی ٹرین میں سوار ہوئی، ان کی سیٹیں نہیں تھیں اس لیے وہ کھڑے ہو کے جا رہے تھے، ہم دوست اپنی اپنی سیٹوں پر کھلے کھلے بیٹھے تھے، ان کی فیملی کو دیکھ کر ہم لوگوں نے ان کو ایک سیٹ پر جگہ دی اور کچھ لڑکے اوپر برتھ پر چلے گئے، ایسے ان لوگوں کے ساتھ تعارف ہوا، انہوں نے بھی اپنا تعارف کروایا، جب بات نکلی سندھ اورپنجاب کے لوگوں کی تو ہم نے کہا کہ پنجاب کے لوگ تو بہت ہی سخت ہوتے ہیں وہ کسی اورصوبے کے لوگوں کو اپنے صوبے میں نہ تو آنے دیتے ہیں اور نہ ہی ان کے کے لیے کوئی اچھی سوچ رکھتے ہیں، میری اس بات پر لڑکیاں تپ گئیں اور اچھل کر بولیں، سنئے جی! یہ بالکل اور سراسر غلط بات ہے ہم آپ کی اس بات سے بالکل بھی اتفاق نہیں کرتیں، پنجاب کا ہر باشندہ ایسا نہیں، ہم ساھیوال کے رہنے والے ہیں، آپ ہمارے ہاں آکر دیکھیں آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہم کتنے محبت کرنے والے ہیں، ہم کسے سے لڑائی جھگڑا نہیں چاہتے اور نہ ہی کسی کا برا سوچتے ہیں۔

کل رات جیسے ہی سانحہ ساہیوال کی خبر اچانک ٹی وی پرآنے لگی تو مجھے فورا وہ معصوم سی بچیاں اور ان کی معصوم سی باتیں یاد آگئیں اور میں اس سانحہ پر سوچتا رہ گیا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے یہ وہی فیملی ہو، واقعی اس فیملی کی نہ تو کسی سے کوئی دشمنی تھی اور نہ ہی وہ کسی کا برا کرنے جارہے تھے توپھر کیوں ان نہتے لوگوں پر اپنے ملک اوراپنے ہی صوبے کی پولیس نے بغیرکسی جواز کے گولیوں کی بارش کردی تھی۔

سانحہ ساہیوال پرآنکھیں نم اور دل بہت اداس ہے، تھوڑی دیر کے لیے بھی آنکھیں جب بند ہونے لگتی ہیں توخون میں نہلائے ہوئے وہ والدین اوران کے وہ معصوم بچے جن کے سامنے ان کے والدین کو بلا وجہ گولیوں سے چھلنی کیا گیا ہ نظر آنے لگتے ہیں۔

ان نہتے لوگوں کی صدائیں ساہیوال کی فضاؤں میں گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہیں، وہ معصوم چلا چلا کر اپنی بے گناہی کی گواہی دیتے اوران جلاد اہلکاروں کو منت سماجت کرتے دکھائی دینے لگتے ہیں۔

ان کی آوازیں جیسے کانوں میں گونجتی سنائی دینے لگتی ہوں کہ ہم کوئی دہشتگرد نہیں، ہم لٹیرے یا ڈاکو نہیں ہم تواپنی منزل کی طرف جانے والے عام مسافر اور اس ملک کے باعزت شہری ہیں۔

وہ چلاتے اورچیکھتے رہے کہ ہم نے کوئی ڈاکا نہیں ڈالا، ہم نے ملکی خزانہ نہیں لوٹا، ہم نے لوگوں کی عزتیں نہیں اچھالیں، ہم نے کسی یتیم کا مال ہڑپ نہیں کیا، کسی مستحق کا حق نہیں مارا، ہم توایمانداری کی زندگی بسر کرنے والے اس ملک کے باشندے ہیں۔

وہ جیسے کہہ رہے ہوں کہ انہوں نے کسی بھی قانون کو نہیں توڑا، انہوں نے ملک کے آئین کی دھجیاں نہیں بکھیری ہیں، وہ تو چپ چاپ اپنا راستہ لیے جا رہے تھے، تو پھر ایسا کیا ہوا کہ پولیس کو بلا کسی جواز کے ان پرگولیاں برسانی پڑیں۔

کیا نئے پاکستان میں ہمارے ملک کی پولیس کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی شہری کو بغیر کسی پوچھ گچھ کے، بغیر کسی انکوائری کے یوں سرراہ موت کے پروانے جاری کرتی رہے۔

عام ملکی قانون تو کسی بھی بڑے سے بڑے نہتے مجرم کو بھی ایسے سرعام مارنے کی اجازت کبھی نہیں دیتا، بڑے سے بڑے مجرم کو بھی گرفتار کرکے عدالت میں اس کا جرم ثابت کیا جاتا ہے، یہ کیسی تبدیلی ہے کہ قانون کے رکھوالے خود ہی قانون کی دھجییاں بکھیرنے کی سند لیے گھوم رہے ہیں۔

ملک کے سب سے بڑے چور، ڈاکو، ملک لوٹنے والوں کے لیے تو یہاں کوئی کڑی سزا تک تجویز نہیں کی جاتی جبکہ عام آدمی کو بلا کسی جواز کے، اپنی غلط فھمی یا کوتاہی کی بنیاد پر مارنے کے لیے اب پولیس کو شاید کسی کی بھی پرواہ ہوتی ہوئی نظرنہیں آتی، شاید اب ان کو اس طرح سے عوام کو مکانے کا ٹاسک دیا گیا ہو۔

سانحہ ساہیوال پر پورا ملک سوگوار ہے، ان بچوں کے دکھ میں آنسو بہائے جا رہے ہیں لیکن اتنے بڑے سانحے پر بھی ملوث اہلکاروں کو صرف معطل کر کے سیاسی جے آئے ٹی بنا دی گئی ہے۔

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی موجودہ حکومت اور اس میں شامل وزیراعظم اور تمام وزرا سانحے میں شہید لوگوں کے ورثا سے ہمدردیاں جتا کر آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ پیچھے کرتے جائیں گے اور یہ سانحہ بھی گذشتہ کئی سانحوں کی طرح تاریخ کا ایک سیاہ باب بن کر رہ جائے گا۔

اس سے پہلے بھی پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں، جن میں بھی اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرکے اصل مجرمان کو بچایا گیا ہے اور یہ روایت ہی اصل میں اس سانحے کی وجہ بنی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).