گلگت بلتستان کے مقدمے میں سپریم کورٹ سے توقعات


چیف جسٹس ثاقب نثار اپنے نجی تفریحی دورے پر جب دیامر بھاشا ڈیم کے مسکن گلگت بلتستان گئے تو لوگوں نے حسب روایت جگہ جگہ پھول نچھاور کیے ، ڈھول بجائے، چوغے اور ٹوپیاں پہنائیں تو وہ بھی یہاں کے مکینوں کے اخلاق اور مہمان نوزی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ پاکستان کے منصف اعلیٰ نے وہاں کئی سالوں سے پابند سلاسل سیاسی راہنما بابا جان کی ماں کے بہتے آنسو بھی دیکھے اور ان کی بہنوں کی دہائی بھی سنی۔ وہاں ان کو یہ بھی معلوم ہوا کہ کہ کئی دوسرے ایسے ضمیر کے قیدی بھی ہیں جن پر پاکستان کے قوانین کے مطابق پر غداری، دہشت گردی اور مذہبی منافرت پھیلانے کے الزامات ہیں۔

مگر چاہنے کے باوجود ان مقدمات پر اپنے صوابدیدی (سو موٹو) اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے فوری انصاف کے اپنے نظریے پر عمل نہ کرواسکے کیونکہ یہ علاقہ ان کے قضا ۃ کی آئینی اور قانونی حدود میں نہیں آتا ہے۔ مگر اس سے بڑا مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ اگر یہ علاقہ عدالت کے دائرہ قضاۃ اور ریاست کے دائرہ اختیار میں نہیں تو پھر دیامر بھاشا ڈیم کی مخالفت پر آئین پاکستان کے خلاف سازش پر آئین پاکستان کی دفعہ 6 کا اطلاق یہاں کیسے ہو سکتا ہے جس کے لئے چیف جسٹس بذات خود ایک مہم چلا رہے ہیں۔ اسلام آباد واپسی پر انھوں نے گلگت بلتستان کے لوگوں کو بنیادی حقوق دینے کے لئے اپنی سربراہی میں ایک لارجر بینچ تشکیل دیا اور اس سلسلے میں متفرق مقدمات کو یکجا کرکے سننے کا فیصلہ کیا۔

سپریم کورٹ کی لارجر بینچ میں مقدمہ چلا تو مختلف درخواست گزاروں، گلگت بلتستان حکومت کے علاوہ وہاں کے وکلاء نے بھی ملک کے نامور وکیلوں اور ماہرین قانون و آئین کے ذریعے اپنی گزارشات پیش کیں۔ حکومت سے گلگت بلتستان کے لوگوں کو بنیادی حقوق دینے کے لئے اقدامات کے بارے میں پوچھا گیا تو پتہ چلا کہ سابقہ حکومت نے سینیٹر سرتاج عزیز صاحب کی یک رکنی کمیٹی کی سفارشات کو مسترد کرتے ہوئے خاقان عباسی کے آخری دنوں میں گلگت بلتستان کے لئے پاکستان کے صدارتی حکم نامہ مجریہ 2009 ء کی جگہ ایک اور حکم نامہ 2018 ء کا اجرا ء کیا ہے جس کے برملا اظہار سے بھی اب حکومت کترا رہی ہے۔ اس پر حکومت کو سخت سست کہا گیا اور وکلاء سے دلائل دینے کو کہا گیا تاکہ کوئی بہتر طریقہ کار وضع کیا جاسکے۔

وکلاء نے فاضل جج صاحبان کو بتایا کہ گلگت بلتستان ایک ایسا علاقہ ہے جو آئین اور قانون کی رو سے کہیں واقع ہی نہیں ہے۔ اس خطے کا جموں کے ڈوگروں کی سرکار سے ناتہ 1947 ء میں ٹوٹ چکا ہے، مظفر آباد میں بننے والی آزاد سرکار سے 1949 ء میں ایک معاہدے کے تحت حکومت پاکستان نے علیحدگی کروادی ہے اور ریاست پاکستان نے تاحال اپنے وجود کا عارضی یا دائمی کا حصہ نہیں بنا یا ہے۔ فاضل عدالت کو معلوم ہوا کہ ہندوستان نے جب اپنے زیر تسلط جموں و کشمیر کے علاقے کو اپنے آئین میں ترمیم کے ذریعے اپنی یونین کا عارضی حصہ بنانے کی کوشش کی تو حکومت پاکستان نے اس قبیح فعل کو غیر قانونی، غیر اخلاقی اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے منافی قرار دیا تھا۔ ایسے میں پاکستان کے لئے ممکن نہیں کہ گلگت بلتستان کو اپنے آئینی دائرہ اختیار میں لاکر اپنے موقف کے خلاف دوسرے فریق ہندوستان کے لئے متنازع خطہ کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کی مذموم کوششوں کاجوازفراہم کرے۔

پاکستان کے نامور وکیل سلمان اکرم راجا نے گلگت بلتستان کے وکلا ء کی نمائندگی کرتے ہوئے فاضل عدالت کو جب بتایا کہ کسی بھی آئین اور قانون کی ضمانت کے بغیر یہاں کے شہری ملک میں درجہ دوئم کے شہری بن چکے ہیں اور یہاں قانون سازی اور بنیادی حقوق کی فراہمی اور تحفظ کا کوئی طریقہ کار موجود ہی نہیں۔ اس پر فاضل عدالت طیش میں آگئی اور سلمان اکرم راجا کو فوراً عدالت سے معافی مانگنے کا حکم صادر ہوا۔ سلمان اکرم راجا نے عدالت سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ اس کی معافی مانگنے سے گلگت بلتستان کے حالات میں کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ حکومت صدارتی حکم نامہ مجریہ 2018ء میں ترمیم کرکے اس کے سامنے پیش کرے تاکہ تفصیلی فیصلے کا حصہ بنایا جا سکے۔

سپریم کورٹ کے فاضل چیف جسٹس نے کہا ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے لئے قانون سازی یا آئین میں ترمیم کے لئے پارلیمنٹ کو نہیں کہہ سکتے اور اس بات کی تائید سلمان اکرم راجا نے بھی کی کیونکہ یہ اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیا گیا ایک ایسا تنازع ہے جس پر کسی ایک فریق کی طرف سے یک طرفہ قانون سازی یا آئینی ترمیم کے ذریعے اس خطے کی حیثیت میں تبدیلی سے پورا کیس متاثر ہوسکتا ہے۔ مگر اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ یہاں کے لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی جس کا وعدہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کا عالمی منشور، اقوام متحدہ کی کشمیر کے بارے میں قراردادوں اور ملک کے آئین میں کیا گیا ہے، حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔

کسی ملک میں شامل ہونا یا نہ ہونا اس ملک اور شامل ہونے والے لوگوں کی مرضی و منشا کے بغیر ممکن نہیں اس میں کسی قسم کے جبر اور دھونس کی گنجائش نہیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ حکومت پاکستان یا کسی بھی ریاست کو اس بات کا عدالتی حکم نہیں دیا جاسکتا کہ وہ کسی علاقے یا خطے اور اس میں بسنے والوں کو خود سے علٰحیدہ کرے یا شامل کرے۔ مگر یہ ہر ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے زیر انتظام یا زیر اثر خطے یا علاقے میں بسنے والوں کے لئے ان تمان بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کا انتظام کرے جو انسانی حقوق کے اقوام متحدہ کے عالمی منشور کے 29 شقوں میں درج ہیں اور جس پر تمام ممالک نے دستخط کرکے نفاذکا اعادہ کیا ہوا ہے۔

پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ 1973 ء کے آئین کے تحت حلف لے کر اس آئین کی شق نمبر 9سے 28 تک دیے گئے تمام بنیادی حقوق کی ریاست اور حکومت کی طرف سے فراہمی کی امین ہے۔ چونکہ گلگت بلتستان کے شہریوں کو بھی بنیادی حقوق دینے کا اختیار اور ذمہ داری اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ریاست اور حکومت پاکستان پر عائد ہوتی ہے اس لئے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ سے بھی اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان تمام بنیادی حقوق کی گلگت بلتستان کے شہریوں کو بھی فراہمی یقینی بنائے جن کا وعدہ پاکستان کے آئین اور اقوام متحدہ کے عالمی منشور میں کیا گیا ہے تاکہ پھر کسی سلمان اکرم راجا سے یہاں کے مکینوں کے درجہ دوئم کے شہری ہونے کی دہائی دینے پرعدالت سے معافی طلب نہ کروانی پڑے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan