حساس ادارے: احساس سے عاری


دنیا بھر میں حساس ادارے اپنے ملک و قوم کی سلامتی کا حلف اٹھاتے ہوئے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں لیکن پاکستان میں ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کا قانون لاگو ہے۔ کمزوروں اور بے قصوروں پر الزامات کی بوچھاڑ کر کے جعلی مقابلوں میں ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے جبکہ دہشتگرد اور اثر و رسوخ کے حامل کرپٹ افراد دندناتے پھرتے ہیں۔

ملک بھر سے آئے روز ہزاروں وارداتوں کی خبروں کا وقتی چرچہ ہوتا ہے۔ حکومت کی جانب سے جے آئی ٹی تشکیل دی جاتی ہے اور کسی معصوم شہری کو ملزم گردان کر سزا دے دی جاتی ہے۔ پچھلی ایک دہائی سے ایسے واقعات کی بھرمار ہے جو اعلی درجے کے افراد کی طرف سے رونما ہوتے ہیں۔ ان میں سانحہ ماڈل ٹاؤن اور نقیب اللہ قتل کیس قابل ذکر تھا جس میں اب سانحہ ساہیوال کا اضافہ بھی ہو چکا ہے۔

لاہور کے علاقے چونگی امر سدھو کا رہائشی بد قسمت خاندان سربراہ خلیل کے ہمراہ بورے والا شادی پر جا رہا تھا۔ اس چھوٹے سے قافلے میں خلیل کے علاوہ اس کا ڈرائیور ذیشان، بیوی نبیلہ، 13 سالہ بیٹی اریبہ، 10 سالہ عمیر، جازبہ اور منیبہ عمریں بالترتیب 7 اور 4 سال ؛ شامل تھے۔ کیا معلوم تھا چھوٹے بچوں کے علاوہ باقیوں کا یہ آخری سفر ہوگا۔ 19 جنوری 2019 ہفتہ کی صبح ماں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تیار کیا۔ بچے بہت خوش تھے، خوش کیوں نہ ہوتے۔ اپنے چاچو کی شادی پر جو جا رہے تھے۔

خوشی خوشی سفر کا آغاز ہوا۔ ساہیوال ٹال پلازہ کراس کرنے کے بعد تھوڑا آگے ہی گئے تھے کہ ملک کے نامور حساس ادارے کاونٹر ٹیرررسٹ ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں نے خلیل کی سفید آلٹو کا پیچھا کرتے ہوئے گاڑی کے ٹائروں پر فائر کیا۔ جس کے نتیجے میں گاڑی کے ٹائر پھٹ گئے اور گاڑی بے قابو ہو گئی۔

گاڑی کے رکتے ہی طاقتور حساس ادارے کے اہلکاروں نے قریب آکر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ فائرنگ سے ڈرائیور کو 10 گولیاں لگیں، خلیل کو 13، خلیل کی بیوی کو چار اور بیٹی کو 6 گولیاں ماری گئیں۔ یہ سب گولیاں سر اور سینے پر لگیں اور موقع پر اموات واقع ہو گئیں۔ گاڑی میں موجود تین بچے فائرنگ کی زد میں آ کر زخمی ہو گئے۔ شاہراہ پر موجود عینی شاہدین نے وڈیو بنا کر جب وائرل کی تو محکمہ انسداد دہشتگردی کے محب وطن اہلکاروں نے بے گناہ خاندان کو دہشتگرد قرار دیا بعد ازاں بیان پر بیان بدلتے رہے۔ لیکن ان ظالموں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا گیا۔

جس دین نے قربانی کے جانور کے سامنے چھڑی تیز کرنے اور ایک جانور کے سامنے دوسرے کی قربانی سے منع فرمایا اسی دین کے پیروکار بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ کو گولیوں سے چھلنی کرتے رہے۔ والدین کو موت کے گھاٹ اتار کر لاشیں بے گوروکفن چھوڑ کر ننھے دہشتگردوں کو بازیاب کروا کر لے گئے۔ حکومت وقت اور وزراء نے مذمت اور امداد کا اعلان کر کے اپنی ذمہ داری پوری کردی۔ جس سے ان معصوم بچوں کے نقصان کا ازالہ کبھی نہ ہو سکے گا۔

ایلیٹ فورس کے سپاہیوں کے بدلتے بیانات میں سے کسی ایک بیان سے بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ جس آپریشن میں اہلکاروں نے ”جان کی بازی“ لگائی وہ دو طرفہ مقابلہ تھا اور گاڑی میں موجود تمام مسافر اسلحہ سے لیس تھے۔ مان بھی لیا جائے کہ جائے وقوعہ پر دہشت گرد تھے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کی لاشیں کیوں چھوڑ گئے؟ دہشت گردوں کی لاہور سے روانہ ہونے کی مخبری تو مل گئی، یہ کیسے اہلکار بھرتی کیے گئے ہیں جنہوں نے بچوں کو بھی دہشت گردوں کے سہولت کار قرار دے دیا؟

عوام کی طرف سے جب احتجاج کیا گیا تو نامعلوم سی ٹی ڈی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب پولیس میں نامعلوم اہلکار بھی اپنی ”خدمات“ انجام دیتے ہیں۔ دوسری طرف پنجاب حکومت نے سانحہ ساہیوال کا ملبہ ڈرائیور ذیشان پر ڈالتے ہوئے واقعہ کو کولیٹرل ڈمیج (جنگ میں عام شہریوں کا جانی نقصان ) قرار دے دیا۔

تبدیلی حکومت سے التجا ہے کہ غیر جانبداری سے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ایلیٹ اہلکاروں کو سرعام پھانسی دے کر عبرت کا نشان بنا دیا جائے تاکہ آئیندہ ایسے سانحات سے ملک محفوظ رہ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).