محروم طبقات کا رونا اور پاکستان سویلین الائنس


سانحہ ساہیوال پر شدیدعوامی ردعمل سامنے آیا ہے۔ پنجاب حکومت ایک طرف متاثرہ خاندان سے ہمدردی کا اظہار کر رہی ہے اور دوسری جانب واقعات کا رخ موڑنے کے لئے کوشاں ہے۔ سی ٹی ڈی کے اہلکاروں پر جو مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس میں کسی اہلکار کو نامزد کرنے کی بجائے 16 نامعلوم افراد لکھے گئے ہیں۔ مطلب مقدمہ درج کرنے کی محض خانہ پری کی گئی ہے۔ متاترہ خاندان کے لئے 2 کروڑ کی امداد کا اعلان بھی معاملہ ٹھنڈا کرنے کی ایک کوشش ہے۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ جس پر ریاست کی جانب سے پردہ پوشی کی کوشش کی گئی ہو۔ بلکہ پاکستان کے بے بس عوام ہزاروں سانحات دیکھ چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔ اس کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں نااہل، کرپٹ، بدعنوان قیادت کے باعث کمزور ہیں۔ سر اٹھا کر بات کرنے کی سکت نہیں رکھتی ہیں۔ مجبوری میں انہیں ریاست کے طاقتور طبقات کی ہاں میں ہاں ملانا پڑتی ہے۔ جس کے نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔

اگر گزشتہ عام انتخابات کو دیکھیں تو اس امر کے شواہد موجود ہیں کہ بالادست طبقہ نے کس طریقے سے عوام کو اس سوچ کے زیر اثر لانے کی کوشش کی کہ ہمارے تعاون کے بغیر کوئی مسند اقتدار تک نہیں جا سکتا ہے۔ یہ سوچ اب معاشرے میں مکمل طور پر سرایت کر چکی ہے۔ خاص کر ناجائز ذرائع سے دولت کمانے والے بدعنوان عناصر جو سیاست میں آتے ہیں ان میں اور پنجاب کے علاقوں میں عمومی طور یہ تاثر عام ہے کہ سیاست میں کامیابی بالادست ریاستی طبقے کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی ہے۔

یہی وجوہات ہیں کہ گزشتہ دنوں رونما ہونے والے سانحہ ساہیوال پر عوامی ردعمل کے جواب میں کچھ طبقات نے پنجابی اور پنجاب کو ہدف تنقید بھی بنایا ہے۔ صوبہ بلوچستان، اندرون سندھ اور کے پی کے کے بعض طبقات میں پنجاب اور پنجابی سے نفرت کا اظہار برملا ملتا ہے۔ جس کو پنجاب میں سندھی قوم پرستی، بلوچ قوم پرستی اور پشتون قوم پرستی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دونوں جانب بعض معاملات میں کچھ غلط فہمیاں ہیں۔ جہاں تک بات ہے سندھ کے کچھ طبقات اور بلوچستان، پشتون کے علاقوں کی تو اس میں دو رائے نہیں کہ انہیں بہت سی محرومیوں کا سامنا ہے جو کہ پنجاب اور پنجابیوں کو نہیں ہے۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پنجاب کے عوام نے سندھ، بلوچستان اور کے پی کے محروم طبقات کا کوئی حق نہیں چھینا ہے۔ بلوچستان کے جبری گمشدہ افراد سمیت دیگر مسائل پر آواز پنجاب سے بھی اٹھائی جاتی ہے اور اٹھائی جا رہی ہے۔ اسی طرح پاکستان کے ہر علاقے کو پنجاب کے عوام پاکستان سمجھتے ہیں۔ مسئلہ حکمران طبقات کا ہے۔ حکمران طبقات کا تعلق بلوچستان سے ہو کے پی کے سے ہو، پنجاب سے ہو یا سندھ سے ہو۔ اگر وہ پارلیمان کا حصہ ہوتے ہیں یا پھر کسی ریاستی عہدے پر ہوتے ہیں وہ صرف اپنے مفاد کی جنگ لڑتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ بلوچستان اور پشتون علاقے کے ممبران، وزرا اپنے علاقے کے محروم طبقات کی لڑائی لڑتے رہے ہیں تو یہ غلط فہمی ہے۔ اگر یہ حقیقت میں لڑائی لڑتے تو پھر منظور پشتین، ماما قدیر کو بولنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ یہ امر واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ حکمران طبقہ کے علاوہ پنجاب کے عوام اور پنجابی ہر مظلوم اور محروم طبقے کے ساتھ ہیں۔

مجموعی طور دیکھا جائے تو پاکستان کی اشرافیہ نے صرف اپنے ذاتی مفاد پر پاکستان کے وسائل کو خرچ کیا ہے۔ بے روزگار، مہنگائی، دہشت گردی سمیت تمام مسائل پورے پاکستان میں یکساں ہیں۔ کیسی ایک صوبہ یا طبقے کو مورد الزام ٹھہرا کر ہم مسائل سے نہیں نکل سکتے۔ مسائل سے نجات تمام محروم، مظلوم اور مسائل کا شکار طبقات کی آپس میں جڑت، اتحاد اور یکجہتی سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان سویلین الائنس اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ ریجن کی تمام جماعتیں ملکی سطح کے اتحاد میں شامل ہوکر متبادل قیادت کے طور پر ابھریں نا اہل، کرپٹ اور بدعنوان سیاستدانوں سے عوام کو نجات دلائیں۔

پیپلزپارٹی، مسلم لیگ، تحریک انصاف اور ان کے اتحادی عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ ریاست کا بالادست طبقہ بھی عوام کی اخلاقی حمایت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ ملکی حالات اس امر کا تقاضا کر رہے ہیں کہ وطن عزیز کو ایک نئی اور حقیقی قیادت کی ضرورت ہے۔ یہ دعوت فکر ہے کہ اگر آج ریجن کی سیاسی جماعتوں نے بیداری کا مظاہرہ نہ کیا تو پھر وہی ہوگا جو گزشتہ 72 سال سے ہو رہا ہے۔ مقتدر حلقے پھر اپنی من پسند مصنوعی قیادت تراش کر ہم پر مسلط کردیں گے اور ہم پھر دیکھتے رہ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).