سانحہ ساہیوال اور پنجاب پولیس کی بد حواسیاں!


سانحہ ساہیوال نے جہاں ہماری آنکھیں نم، دل گھائل اور اعصاب شل کیے وہاں پنجاب پولیس اور اس کے سب سے کارگر شعبے سی ٹی ڈی پر بہت سے سوالات اٹھائے ہیں کہ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا تحفظ کن ہاتھوں میں ہے؟ ساہیوال واقعے کی پولیس کارروائی کی اگر ساری فوٹیج اور ویڈیوز ریکارڈنگ دیکھی جائیں تو اس پوری کارروائی کے پیچھے کار فرما کوئی منصوبہ ساز دکھائی نہیں دیتا کہ شارع عام پر ایک حساس کارروائی اتنی غیر نظمی اور منصوبہ سازی کے بغیر ہوئی جس کا سر پیر اور سرا نظر آنا تو دور کی بات، لگتا ہے اس پوری کارروائی کا کوئی بھی بادماغ، تجربہ کار انچارج موقع پر موجود ہی نہیں تھا ورنہ پولیس عوام کے سامنے اتنی بڑی کارروائی اتنی بے رحمی اور غیر سنجیدگی سے کبھی نہ کرتی؟

اگر پنجاب پولیس کے سامنے اپنے فرض کی ادائیگی میں انسانی جانوں کی بھلے کوئی قیمت نہ ہو پھر بھی روکی گئی کار سے خواتین اور بچوں کو الگ کر کے مطلوب افراد کو گرفتار کیا جا سکتا تھا لیکن اندھا دھند فائرنگ کے بعد فورس ان لوگوں کو خون میں لت پت چھوڑ کر، بچوں کو لے کر ایسے بھاگ نکلی جیسے یہ کارروائی کسی خطرناک علاقہ غیر یا دشمن کے علاقے میں ہوئی ہے اور منصوبہ سازوں کا بس یہی ہدف تھا جو پورا ہوا اور ان گولیوں سے چھلنی لاشوں کو عوام کی تفتیش اور کارروائی کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا جبکہ ایک زخمی بچے اور دو بچیوں کو ایک پٹرول پمپ پر بے یارو مددگار چھوڑ کر بھاگ نکلے۔

پھر بعد میں خیال آیا تو جلدی سے وقوعہ سے لاشوں اور سامان کو، پٹرول پمپ سے بچوں کو ہسپتال لے جایا گیا اس واقعے کے بعد بھی مسلسل بدحواسیوں کا مظاہرہ کیا گیا DPO ساہیوال کا ہینڈ آؤٹ پھر واقعے کا سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر آنے کے بعد انتظامیہ اور وزرا کا فوری ردعمل، بھانت بھانت کے بھاشن نے یہ قلعی کھول دی کہ حکومت اور حکومتی اداروں کے درمیان رابطے، موقف اور رائے میں کوئی ترتیب نہیں۔ عوامی دباؤ کے بعد معلوم افراد جو تحویل میں لئے گئے تھے نامعلوم کر کے ایف آئی آر کاٹ دی گئی۔

اس سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آئی کہ پولیس کوئی بھی کارروائی کسی قانونی اور اخلاقی دائرے میں رہ کرنے کی عادی نہیں اور نہ ہی وہ کسی انجام کی پرواہ کرتی ہے ورنہ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر ضروری ہلاکتوں کے سبب عوامی ردعمل غیض و غضب کو ضرور ملحوظ خاطر رکھتی۔ زینب بی بی کے واقعے پر قصور میں مشتعل ہجوم سے جس طرح پنجاب پولیس نے سیدھے فائروں سے نمٹ کر ہلاکتیں کی تھیں اس شرمناک واقعے سے بھی کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا گیا۔

پنجاب پولیس کی ان بد حواسیوں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا ان کے پاس ایسی ذہانت اور قیادت موجود ہے جو کسی بڑی منظم دہشت گردی کا مقابلہ ایک مربوط تنظیم کے انداز میں کرسکے؟ کوئی بھی پولیس کارروائی عوام کے تحفظ اور امن کی خاطر ہوتی ہے اور اگر اس کارروائی کا مقصد تحفظ اور امن نہیں تو پھر یہ کارروائی کھلی دہشت گردی ہے جس کی اجازت کوئی مہذب اور جمہوری معاشرہ کبھی نہیں دے سکتا۔ ہم غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود اپنے سلامتی کے اداروں کو عوامی خدمت اور تحفظ کا مشن نہیں دے سکے لیکن اب سوچنا ہوگا کہ پنجاب پولیس کی تربیت اور مشن عوامی خدمت اور تحفظ پر مبنی ہو گا تو جرائم کا خاتمہ ہو کر امن قائم ہو گا ورنہ یہ واقعات ایک کے بعد ایک ہوتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).