کنول جیسے ایدھی اور کاغذ کے پھول


مشرقی مذاہب اور دنیا بھر کے رُوحانی سلاسل میں کنول کا پھول ایک بنیادی علامت سمجھا جاتا رہا ہے کیونکہ یہ پھول ٹھہرے ہوئے پانی کے جوہڑ سے اٹھتا ہے، اس سے بلند ہوتا ہے اور پھر بدبو دار پانی کی ایک چھینٹ بھی اپنے دامن پر نہیں پڑنے دیتا۔ اسی کیچڑ پر ایسی شان سے کھلتا ہے کہ مقدس پہاڑوں کی چوٹیوں اور شاہی باغات میں کھلنے والے پھولوں کو بھی اس کی رفعت نصیب نہیں ہوتی۔

جس جوہڑ میں کنول کھل جائے پانی کا رنگ سبزی مائل ہوجاتا ہے۔ قدیم مصریوں کا خیال تھا کہ کنول آدھی رات کو جب اس پانی میں غسل لیتا ہے تو یہ پانی خضر کی طرز کے کسی دیوتا کا مسکن بن جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ہر سماج صدیوں میں کنول جیسے کچھ لوگ پیدا کرتا ہے جن سے اس سماج کو نئی زندگی ملتی ہے اور آنکھ کسی بلند مقصد کی طرف اٹھ جاتی ہے۔

 ہندوستان میں کنول جیسے خرقہ پوشوں کی کئی نشانیاں بتائی جاتی تھیں۔ جو لوگ خود کیچڑ سے اٹھے اور پھر کسی پرائے گلشن میں جابسنے کی بجائے اپنے ہی کیچڑ کو گلزار بنانے میں مگن ہوگئے۔ ایسے لوگ ہر دور میں ہر سماج کے رول ماڈلز رہے ہیں۔

ایدھی بھی ہمارے سماج میں کنول کے پھول کی مانند اگے، اس سے بلند ہوئے اور اپنے دامن پر وقت کی ایک چھینٹ بھی نہیں ٹکنے دی۔ ریاکاری کے اسی دور میں جئے جس میں ہم سب جی رہیں اور جس میں پارسائی کے کئی دعویداروں کے دامن داغ داغ دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے پارسائی کا کوئی دعویٰ کئے بغیر جیون چادر اس ڈھنگ سے اوڑھی کہ جوں کی توں لوٹا دی۔

وہ لوگوں کے ساتھ اُن جیسی زندگی جئے۔ عام آدمی کی طرح انہیں سڑکوں چلتے رہے جن پر ’خاص ‘ لوگ محافظوں کے بغیرایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے۔ ایسا لباس نہیں پہنا کہ عام لوگ اُن سے دُور بھاگنے لگتے۔ ان پر اس دور کے طاقتور اور خطرناک ترین لوگ باوجود کوشش کے ہاتھ نہیں ڈال سکے۔ لیکن وہ اس قدر معصوم اور بے ضرر تھے کہ لاوارث بچے ان کی داڑھی سے کھیلتے رہے اور وہ مسکراتے رہے۔

سوشل میڈیا پر شئیر کی جانے والی تصاویر میں دیکھیں۔ کہیں چارپائی پر بچوں کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلا رہے ہیں۔ کہیں کسی یتیم بچی کو پانی پلا رہے ہیں اور اس معصوم نے اُن کی انگلی پکڑ رکھی ہے۔ کہیں اس بچے کو نہلا رہے ہیں جس کی ماں سماج کے خوف سے ان کے پنگھوڑے میں چھوڑ گئی۔ جن کا نام نہیں تھا انہیں اپنا نام دے رہے ہیں تاکہ کل کوئی اگر ان سے ماں باپ کا نام پوچھے تو یہ شرمندہ نہ ہوں بلکہ فخر سے بتا سکیں۔

کنول کے پھول کے بارے میں یہ بھی کہتے ہیں کہ جو اس پھول جیسا ہوجاتا ہے اُس کی آنکھ کہیں اور لگ جاتی ہے۔ ان کی ایک ایک تصویر میں دیکھیں ان کی آنکھیں کہاں لگی ہیں۔ کنول کے بارے میں مشہور ہے کہ کنول سورج کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور اس لئے یہ پھول بلند نگاہی اور برابری کا استعارہ بھی ہے۔

چونکہ پاتال میں پڑے اور بلندی پر کھڑے لوگوں کو ایک سا دکھائی نہیں دیتا اس لئے کیچڑ کی لتھڑی آنکھ کو وہ کچھ دیکھنے میں مشکل پیش آتی ہے جو ایک بلند نگاہ انسان با آسانی دیکھ سکتا ہے۔ پاتال میں پڑوں کو وہ بھی ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتا جو لمحۂ موجود میں ہورہا ہے اور بلند نظر انسان وہ بھی دیکھ لیتا ہے جو ابھی نہیں ہوا لیکن ہوسکتا ہے۔

اس لئے ممکن ہے کہ لوگ جسے حرام کا بچہ کہیں خورشید وار دیکھنے والے کو اس میں زندگی کا وہ امین دکھائی دے جسے’ کسی ‘ نے جیون جیسی بیش قیمت امانت سونپ کر بھیجا ہے۔

بلند آنکھ خوب سے خوب تر اور پاتال میں پڑے لوگ صرف بد سے بدتر کا امکان دیکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ کنول جیسے لوگوں کی آنکھیں غفلت اور نیند سے نہیں ہر دم بیدار رکھنے والے سپنوں سے بوجھل رہتی ہیں۔ وہ تقریر، وعظ اور تبلیغ نہیں کرتا، جی کر دکھاتا ہے۔ کیچڑ سے اٹھ کر کھلنے اور پھر مہکنے کا ڈھنگ سکھاتا ہے۔ لوگ اس سے اچھی تقریر کرسکتے ہیں لیکن اس کی طرح جینا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس لئے کنول کے سامنے مفادات کے گملوں میں سجے کاغذی پھولوں کا رنگ خود بخود اڑ جاتا ہے۔

اس کا بھی ثبوت دیکھنا ہوتو ایدھی صاحب کی زندگی میں دیکھیں۔ کہیں ان کے ساتھ وہ کھڑا ہے جو بڑا لگنے کے لئے بڑے جتن کرتا ہے۔ کہیں پھولوں والے، کہیں ستاروں والے لیکن ایدھی صاحب کے پاؤں میں وہی جوتی ہے جو اس دیس کے پاؤں میں ہے، وہی لباس ہے جو اس دیس کے تھکن سے چُور مزدور کے بدن پر ہے لیکن سادگی کا موتی ہے کہ سب کو ماند کئے جارہا ہے۔

اس شخص نے ایسا لباس پہننا پسند نہیں کیا جو عام لوگوں کو مرعوب اور ان سے بڑا لگنے کے لئے پہنا جاتا ہے کیونکہ اس لباس سے انہیں طاقت اور رعونت کی بو آتی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ اس بُو کا توڑ کوئی عطر یا کولون نہیں صرف سادگی کی خوشبوعاجزی کی چمک ہے۔ یہ اسی خوشبو، اسی چمک کا کمال ہے کہ ان کے ساتھ کوئی شہنشاہ بھی کھڑا تھا تو ماند پڑگیا۔

انہوں نے اُن لوگوں کا حلیہ بھی اختیار نہیں کیا جنہوں نے سادگی سادھ رکھی ہے۔ جو سادگی کے قصے بیچ کر عیش کا سامان خریدتے ہیں۔ ان کی زندگی سے ایک بڑا سبق یہ بھی ملتا ہے کہ ’سادگی سادھی نہیں جا سکتی ‘ اور جو سادھی اور تعیش کے مول بیچی جائے وہ سادگی نہیں ہوتی۔

ہم اپنی زندگیوں میں ایدھی صاحب کو نہ دیکھتے تو شاید یہ بات ہمیں کبھی سمجھ نہ آتی کہ فقیر ’بڑا‘ لگنے کے گندے کھیل سے الگ ہوکر کیوں بیٹھ جاتے ہیں اور ان کا اس کھیل سے الگ ہوجانا بے عملی نہیں بلکہ پائیدار اور غیر متشدد مزاحمت آزمودہ نسخہ ہے کیونکہ وہ انقلاب پر نہیں ارتقا پر یقین رکھتے ہیں۔ انقلاب کا قدم واپس بھی اٹھ سکتا ہے لیکن ارتقا کا نہیں۔

ایدھی جیسی ہستیوں پر یہ راز کھل چکے ہوتے ہیں کہ لوگ بڑا بننے کے چکر میں ہی چھوٹے ہوجاتے ہیں۔ اس لئے بڑ ا وہ ہوتا ہے جو چھوٹے بڑے کے اس کھیل سے بڑا ہوجائے۔ ایدھی صاحب نے ہمیں جی کر بتایا ہے بڑا ہونے اور بڑا دکھائی دینے میں کیا فرق ہے۔ آقائی اور خدمت گار قیادت میں کیا فرق ہے۔

لیکن ایدھی صاحب کی یہ سب خوبیاں کاغذی پھولوں کے لئے خطر ے کا نشان بن گئی ہیں۔ وہ محسوس کررہے ہیں کہ لوگ ایدھی کی آنکھ سے دیکھنے لگے تو صرف سادگی کے قصے نہیں بکیں گے۔ جینا پڑے گا۔ لوگ جاگ گئے تو تبدیلی کے نعرے نہیں بکیں گے۔ نعرے لگانے والوں کو خود بدلنا پڑے گا۔

آئیں جاگ جائیں !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments