کیا سانحہ ساہیوال کا فیصلہ فوجی عدالت میں ہوگا؟


آپریشن ضرب عضب کے باوجود پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے میں ایک سو تیس سے زیادہ بچوں کے قتل نے ریاستی کمزوریوں کو نمایاں کیا تو حکومت نے عدالتی نظام میں سست روی کا جواز دیتے ہوئے انتہا پسندی سے متعلق مقدمات سے بروقت نمٹنے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کیں۔ فوجی عدالتیں جنوری 2015 میں دو سال کے لئے قائم کی گئی تھیں تاہم 2017 میں دو سال توسیع کی گئی جس کی آئینی مدت 7 جنورری 2019 میں ختم ہوگئی ہے۔ چار سال قبل وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ملٹری کورٹس کے قیام پہ اراکین پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ غیر معمولی حالت اور محدود وقت کے لیے ہے کچھ سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف تھیں پیپلز پارٹی کے رہنما قمرالزماں کائرہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ ایسے تمام قوانین پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کے خلاف بہت استعمال ہوئے۔

آئینی مدت ختم ہونے کے بعد ایک بار پھر یہ موقف زور پکڑنے لگا کہ فوجی عدالتوں کا قیام ضروری ہے لیکن اس بار بھی حسب سابق پیپلز پارٹی نے اپنے موقف کو دہرایا اور ایسے قوانین کی سخت مخالفت کی گئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفو رنے کہا فوجی عدالتیں پاک آرمی کی خواہش نہیں اور نہ ہی ان کی فوج کو ضرورت ہے بلکہ یہ قوم کی ضرورت تھیں پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا توفوجی عدالتیں قائم رہیں گی۔ 7 جنوری کے بعد فوجی عدالتوں کی توسیع کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے کے بارے میڈیا میں بحث زور پکڑ رہی تھی۔ پیپلز پارٹی نے چار سال قبل کی طرح اب بھی اپنے موقف پہ قائم رہتے ہوئے فوجی عدالتوں کے قیام کی سخت مخالفت کی۔

19 جنوری کو سانحہ ساہیوال رونما ہوتا ہے اور دو دن بعد ہی وزیر مملکت شہریار آفریدی پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاون اور سانحہ ساہیوال کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں رکھتے ہیں دودھ کا دوھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا، وزیر مملکت کا یہ بیان ایسے موقع پہ آتا ہے کہ جب فوجی عدالت اپنی آئینی مدت پوری کرچکی ہے اور اس میں صرف وہی کیس ہی حل ہوں گے جو پہلے سے نمٹنے کے انتظار میں ہیں تو پھر وزیر مملکت ایسا بیان کیوں دیتے نظر آتے ہیں۔

جی ہاں فوجی عدالتوں کا فیصلہ ہوچکا ہے اب پارلیمنٹ کیا چاہتی ہے آپ بخوبی جانتے ہیں سانحہ ساہیوال کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلانے کا فیصلہ ہونے والا ہے جی ہاں وہی فوجی عدالت جو 7 جنوری کو اپنی آئینی مدت پوری کرچکی ہے تو کیا ہوا اب مقدمہ بھی تو چلانا ہے تو بھائی اس لئے ضروری ہے فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید توسیع کی جائے۔ تاکہ انصاف کا بول بالا ہوسکے اور رہی بات پیپلز پارٹی کی ملٹری کورٹس کی مخالفت کی تو اب جیسا کہ قوم سمیت وزیر اعظم بھی سانحہ ساہیوال کے سکتے میں ہیں بالکل ایسے ہی جیسے سانحہ آرمی پبلک کے وقت دکھ میں مبتلا تھے اس لئے چار سال قبل کی طرح اب بھی فوجی عدالتوں کے مخالفین کی رائے بے معنی ہوجائے گی۔

توقیر کھرل صحافت کے طالبعلم ہیں۔ تحقیقی موضوعات پہ اب تک سو سے زائد فیچر لکھ چکے ہیں۔ فوٹو گرافی کو بھی پسند کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).