ایف آئی آر


سردیوں کی ایک انتہائی سرد ٹھٹھرتی رات۔
سنسان اتنی کہ جیسے قبرستان۔
سناٹا ایسا کہ جیسے موت۔
اندھیرے میں خنجر کی طرح اتری ہوئی سڑک۔
سڑک کنارے پولیس اسٹیشن کی روشنی جیسے امید کی آخری کرن۔

پولیس اسٹیشن کے اندر ایک کم عمر لڑکا پولیس انسپیکٹر کے سامنے بیٹھا ہوا۔
لڑکے کے چہرے پر ابھی جوانی نہیں اتری مگر تازہ خون کے چھینٹوں نے اس کے چہرے کو ایسا بنادیا ہے جیسے ستر برس کا بوڑھا۔
اس کی فقط ایک آنکھ سے آنسو بہہ رہا ہے۔ دوسری آنکھ خشک ہے۔
اس کا دبلا پتلا جسم سردی اور خوف سے یوں لرز رہا ہے، جیسے ماں کی گود سے چھینا گیا بچہ۔
اس کے کپڑوں پر بھی جابجا خون کے دھبے ہیں۔

لڑکا لرزتی آواز میں پولیس انسپیکٹر سے مخاطب ہے۔
پولیس انسپیکٹر گرم گرم چائے کے سرڑ سرڑ گھونٹ لے کر خود کو گرماتے ہوئے سپاٹ نظروں سے لڑکے کو دیکھ رہا ہے۔
شاید سن رہا ہے۔
شاید نہیں سن رہا۔

لڑکے کی آواز بار بار سسک کر ٹوٹ جاتی ہے، مگر وہ مسلسل بول رہا ہے۔
بول رہا ہے کہ۔ ۔ ۔
سر! میری ایف آئی آر درج کریں۔
سر! میں اس ملک کا بچہ ہوں۔
میرا نام کچھ بھی لکھ دیں سر!
غریب کا بچہ لکھ دیں
عوام کا بچہ لکھ دیں
عام آدمی کا بچہ لکھ دیں
کچھ بھی لکھ دیں

مگر ایف آئی آر میں لکھیں سر کہ میری جان کو خطرہ ہے حکومت سے۔
لکھیں سر! کہ حکومت میری جان کی دشمن ہوگئی ہے۔
اور اس کے ساتھ وہ بھی میری دشمن ہوگئی ہے سر!
وہی سر! وہ اسے کیا کہتے ہیں؟

وہ جو کہتے ہیں کہ ماں جیسی ہوتی ہے! مجھے اس کا نام نہیں آتا سر۔ مگر وہ بھی میری جان کی دشمن ہوگئی ہے۔
اسے ماں جیسی بولتے ہیں نا سر! مگر یقین کریں وہ بالکل ماں جیسی نہیں ہے۔
مجھے ان دونوں سے ڈر لگتا ہے سر!
مجھے ان کی آنکھوں میں خون نظر آتا ہے سر!
یہ۔ یہ۔ آپ خون کے چھینٹے دیکھ رہے ہیں نا۔ میرے کپڑوں پر۔ میرے منہ پر۔ یہ ان کی آنکھوں میں اترے ہوئے خون کے چھینٹے ہیں سر!

وہ ہمیں اس طرح دیکھتے ہیں سر!
جیسے وہ میری امی کو ماردیں گے!
جیسے وہ میرے ابا کو ماردیں گے!
جیسے وہ میری بہن کو بھی ماردیں گے!
اگر انہوں نے ان تینوں کو ماردیا تو پھر میں تنہا رہ جاؤں گا سر!

پھر میں کہاں جاؤں گا سر!
کہاں تنہا مارا مارا پھروں گا!
مجھے لگتا ہے وہ میرے گھر کے باہر گھات لگائے بیٹھے رہتے ہیں!
ہم میں سے جو بھی باہر نکلے گا وہ اسے ماردیں گے سر!

مجھے پتہ ہے سر! آپ سوچ رہے ہیں کہ وہ تو ماں جیسے ہیں۔
مگر یقین کیجیے سر! وہ ماں جیسے نہیں ہیں۔
وہ ماں جیسے نہیں ہیں۔

آپ کو پتہ ہے۔ میری ماں تو ایسی ہے سر۔ کہ اگر مجھے ڈر لگے نا تو مجھے گود میں چھپالیتی ہے۔ کہتی ہے۔ میں تیرے صدقے جاؤں۔ میں تیرے پہ واری جاؤں۔ ماں قربان۔ تو نہ ڈر میری جان۔ میں تیری ماں ہوں نا تجھے چھپانے کے لیے۔

وہ ماں جیسے نہیں ہیں سر!
وہ دو بھی نہیں ہیں۔
وہ ایک ہی ہے

بس ایک ہی گردن پر اس کی شکل دو طرف سے نظر آتی ہے سر۔ ایک طرف سے اس نے کسی بادشاہ جیسی شکل بنائی ہوئی ہے اور سر پر تاج رکھا ہوا ہے اور دوسری طرف سے اس کی شکل بندوق جیسی ہے سر!

سر! آپ چپ کیوں ہیں؟
آپ ایف آئی آر لکھیے نا ان دونوں کے خلاف!
لڑکا پولیس انسپیکٹر کے سامنے سسک کر ہاتھ جوڑ دیتا ہے۔

انسپیکٹر اسے شاید سن رہا تھا۔
شاید نہیں سن رہا تھا۔
اچانک گرج کر سپاہی کو آواز دیتا ہے۔
سپاہی سیدھا آکر سلیوٹ مارتا ہے۔
صاحب کو سلام۔

انسپیکٹر لڑکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حکم دیتا ہے۔
یہ غدار ہے۔
اسے لاک اپ میں ڈال دو۔
سپاہی لڑکے کو دبوچ لیتا ہے۔

لڑکا چیخ رہا ہے
سر! میں غدار نہیں ہوں۔
سر! میں ہر صبح اسکول میں قومی ترانہ پڑھتا ہوں۔
سر! میں ہر صبح ملک کے پرچم کو دل سے سلیوٹ کرتا ہوں۔
سر! میں اس ملک سے بہت محبت کرتا ہوں۔
سر! میں اس ملک میں پیدا ہوا ہوں۔
سر! اس ملک کے سوا میرے سرچھپانے کی کوئی جگہ نہیں۔
میں غدار نہیں ہوں سر!
میں غدار نہیں۔

مگر سپاہی لڑکے کو گھسیٹتا ہوا لاک اپ میں دھکیل چکا ہے۔
باہر سے بھاری تالا ڈال چکا ہے۔
لڑکا اب سلاخوں کو جھنجھوڑ رہا ہے۔

انسپیکٹر گرم چائے کا آخری گھونٹ سرڑ کی آواز کے ساتھ حلق سے نیچے اتار کر حلق کی توانائی بحال کرتا ہے۔
کرسی سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔

وہیں سے لڑکے کو مخاطب کرتا ہے۔
تم مستقبل کے غدار ہو۔
مستقبل کے دہشتگرد ہو۔
ابھی سے تمہیں جڑ سے کاٹنا ضروری ہے۔
ابھی سے تمہارے ماں باپ کو بھی جڑ سے کاٹنا ضروری ہے کہ وہ مزید غدار اور دہشتگرد پیدا کرسکتے ہیں۔
تمہاری بہن بھی تمہاری ساتھی بن سکتی ہے، اس لیے اسے بھی ابھی سے جڑ سے کاٹنا ضروری ہے۔
ملک کی بقا کے لیے بہت دور کا سوچنا پڑتا ہے۔
سمجھے!

انسپیکٹر لڑکے کو سسکتا بلکتا چھوڑ کر پولیس اسٹیشن سے باہر نکل جاتا ہے بڑے صاحب سے شاباشی لینے۔
لڑکا سسکتے بلکتے تھک کر چوُر ہوجاتا ہے۔
زمین پر گر پڑتا ہے۔
اچانک اس کی نگاہ لاک اپ کے کونے میں سکڑے سمٹے سہمے بیٹھے بوڑھے پر پڑتی ہے۔
پرندے جیسا بوڑھا جس کے تمام پر نوچے جاچکے ہیں۔
لاغر۔
ہڈیوں کا ڈھانچہ۔

لڑکا چونک کر اس اجنبی کو دیکھتا ہے۔
پوچھتا ہے
تم کون ہو؟

بوڑھا دکھ سے ہنس دیتا ہے
میں وہ ملک ہوں جس کا ترانہ تم ہر صبح اسکول میں گاتے ہو
لڑکا حیرت سے ساکت ہوا ملک کو دیکھ رہا ہے، جس سے وہ بالکل ایسی محبت کرتا ہے، جیسی اس کی ماں اس سے محبت کرتی ہے۔

تم ایسے کیوں ہو؟ یہاں کیوں ہو؟
یہ سوال کرنے سے لڑکا خود کو روک نہیں سکا ہے۔

بوڑھا دکھ میں ڈوبی ہنسی ہنس دیتا ہے۔
کئی سال پہلے میں بھی ایف آئی آر لکھوانے آیا تھا۔
انہوں نے مجھے یہاں ڈال دیا۔
۔ ۔
رات مزید لمبی ہوتی چلی گئی ہے۔
لڑکا بوڑھے کی گود میں سر رکھے روتے روتے سو چکا ہے۔

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah