الیکشن 2019 اور ہندوستانی مسلمان


اس کے لئے ماہرین کو بھی چاہیے کہ جمعہ کے خطبوں کے ذریعہ مسلمانوں میں تعلیمی، معاشی اور سیاسی شعور پیدا کریں۔ اور اس میں بات علاقائی زبانوں میں بھی سمجھانے کی کوشش کی جائے مثلاً مراٹھی، کنڑ، تامل، ملیالم، بنگالی، اڑیہ، پنجابی جہاں یہ زبانیں بولی جاتی ہیں تاکہ کم پڑھا لکھا اور ایک عام آدمی بھی بات کو بہتر ڈھنگ سے سمجھ سکے۔

یہ فی الحال مسلمانوں کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس کا احساس مسلم لیڈروں کو بھی ہمیشہ رہا ہے۔ چنانچہ ماضی میں مسلم مجلس، اتحاد المسلمین جیسی سیاسی پارٹیوں کا قیام بھی عمل میں آیا لیکن اب تک ان کی ملک گیر تو چھوڑیئے ریاست گیر سیاسی شناخت بھی قائم نہیں ہو سکی، وہ ہر الیکشن میں کسی دوسری پارٹی کے حاشیہ برداربنتے رہے۔ ادھر ماضی قریب میں بھی بٹلہ ہاؤس انکاونٹر کے بعد علماء کونسل اور پھر ابھی کچھ سال قبل ویلفیر پارٹی آف انڈیا کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اسے بھی اوپر اٹھانے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب علماء اور مسلم لیڈر ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر آئیں اور طے کریں کہ مسلمان کس پارٹی کو ووٹ دیں۔ مسلم اکثریتی علاقوں سے مسلمان نمائندوں کی جیت کو یقینی بنائیں اورساتھ ہی فرقہ پرستوں کو کسی بھی صورت میں اقتدار سے باہر رکھیں۔

کہا جاتا ہے کہ ”آزمائے ہوئے کو آزمانا بہت بڑی غلطی ہے“۔ ہم نے بی جے پی اور کانگریس دونوں کو بار بار آزما کر دیکھ لیا۔ دونوں کی ذہنیت ایک ہے۔ بس نام الگ الگ ہیں۔ لیکن اس بابت اس کا بھی باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا کہ اس وقت مسلم بیزاری کی جو لہر پورے ہندوستان میں جاری ہے ان حالات میں کوئی مسلم سیاسی پارٹی عام ووٹروں کوکس طور متاثر کر پائے گی۔ اگر آسام کی طرح علماء کونسل یا متحدہ مسلم محاذ کو بھی کچھ کامیابی مل جاتی ہے یا اسی طرح آندھرا پردیش میں مجلس اتحاد مسلمین یا کرناٹک میں ایس۔

ڈی۔ پی۔ آئی (سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا) اپنی حد تک مسلمانوں کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی مقدور بھر کوشش کر رہی ہے۔ مگر اس سے مکمل مسلمانوں کے مسائل حل تو نہیں ہوں گے۔ ہاں! اس تجربہ سے ایک حد تک خود اعتمادی پیدا ہوسکتی ہے۔ مسائل حل نہ بھی ہوں تو جن سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو بندھوا غلام سمجھ رکھا ہے یا جنہوں نے بی جے پی کا خوف دلا کر یہ سمجھ رکھا ہے کہ مسلمان جائیں گے کہاں؟ لامحالہ ان ہی کے سیکولر دروازہ پر سجدہ ریز ہوں گے ایسی تمام پارٹیوں کو ایک زبردست چوٹ لگ سکتی ہے اور تب ان کو مسلمانوں کی سیاسی قوت کا اندازہ ہوگا۔

اس پس منظر میں چھوٹی چھوٹی علاقائی مسلم سیاسی پارٹیوں کی افادیت تو ہے لیکن پورے مسائل کے حل کا یہ علاج نہیں ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں کا سروے کر کے دیکھا جائے کہ کہاں کہاں مسلمانوں کے ایسے علاقے ہیں جہاں وہ اکثریت میں ہیں، ان مقامات کی نشاندہی کر کے ان علاقوں میں پوری طاقت صرف کی جائے اور مسلمانوں کو تیار کیا جائے کہ وہ اجتماعی طور پر اپنے ووٹ کا استعمال کریں اور کسی قیمت پر ووٹ تقسیم نہ ہونے دیں۔ مسلمانوں کی تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کا متحدہ الیکشن مینی فیسٹو ہو۔ مختلف چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بنانے سے گریز کریں۔ اور نہ ہی ایسی پارٹیاں بنائی جائے جو خالص مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہو اس سے فرقہ واریت بڑھے گی۔ اور فرقہ پرستوں کو بالراست فائدہ ہوگا۔

اس وقت سب سے اہم مسئلہ مسلم نوجوانوں کی رہنمائی کا بھی ہے۔ ہمارا نوجوان طبقہ اس وقت سب سے زیادہ ذہنی اور فکری انتشار کا شکار ہے۔ یوں تو تقریباً تمام معاملات میں ان کی حالت ایسی ہی ہے لیکن اس معاملہ میں کچھ زیادہ ہی انتشار کا شکار ہے۔ مانا کہ حالیہ دنوں میں تعلیم وغیرہ کو لے کر نوجوانوں میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں اور ان کے اندر سوجھ بوجھ بھی پہلے کے مقابلہ میں کافی حد تک بیدار ہوئی ہے۔ لیکن انہیں تعلیمی لیاقت کے مطابق ملازمت نہ ملنے، ہر جگہ شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھے جانے، ملک کی بیشتر منفی وارداتوں میں بلا وجہ انہیں پھنسا دِیے جانے جیسے رویوں سے ان کے اندر ایک قسم کی بے چینی، اضطراب اور خوف و دہشت کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔

وہ زبان کھولتے ہوئے بھی ڈر تے ہیں۔ کچھ لوگ اگر زبان کھول بھی رہے ہیں تو جذبات کی رَو میں انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ اور شر پسند عناصر اسی کا فائدہ اٹھانے کے فراق میں رہتے ہیں۔ یہ نوجوان ہر اس شخص کو مسیحا سمجھتے ہیں جو ان سے روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ کئی انتخابات میں اسی وعدہ پر نہ جانے کتنے ووٹ بٹورے گئے۔ نوجوان اپنے رہنماؤں سے سب سے پہلے یہی امید وابستہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد بھی کئی مسائل ہیں لیکن روزگار ایک اہم مسئلہ ہے اور اس کو سیاسی سطح پر ہی حل کیا جاسکتا ہے صرف وعدہ فردا اس کا حل نہیں ہے۔ عام طور پر دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ الیکشن کے آس پاس فسادات، دھماکے اور اس طرح کی غیر انسانی حرکتیں کچھ زیادہ ہی ہوتی ہیں۔ جس کا فائدہ شر پسند عناصر اٹھانا چاہتے ہیں ایسے موقع پر احتیاط سے کام لینے کے علاوہ مسلم نوجوانوں کے اندر خصوسا صبر و تحمل کا مادہ پیدا کرانا بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔

اگر ایسا ہوتا ہے اور ہم ان امور میں کامیاب ہو گئے تواس بات کا اغلب امکان ہے کہ ہماری تعداد کے حساب سے انتخابی حلقے مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوں گے جہاں مسلم اجتماعی فیصلے کے تحت اپنا جلوہ دکھا سکتے ہیں۔ فی الوقت مسلمانوں کو ہر پارٹی میں شامل ہو کر اپنی بات منوانی ہو گی۔ ہم کسی ایک پر نہ تو بھروسا کر سکتے ہیں نہ ہی کسی ایک پر منحصر رہ سکتے ہیں۔ مسلم قیادت اس پر بھی توجہ دے سکتی ہے۔ سیاست میں حصہ لینے والے ملک کی سیاسی، سماجی، اقتصادی اور معاشرتی حالات کا بھی قریب سے جائزہ لینے کی ضرورت ہو گی اور مسلمانوں کے ساتھ ہم وطن بھائیوں، دلتوں اور پسماندہ طبقات سے سیاسی وسماجی تعلقات اور ان کے مسائل کو بھی جاننا ہوگا۔ موجودہ مسائل کے حل کے لئے ہم محض اللہ کا نام لے کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتے بلکہ ہمیں خود ہی پیش قدمی کرنی ہوگی۔ اللہ کی مدد اسی صورت میں آ سکتی ہے کیوں کہ اللہ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 168 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah