ساہیوال واقعہ اور خون خاک نشیناں


بس یوں ہوا کہ ایک چھوٹے سے خاندان نے نئے نویلے کپڑے پہنے۔ بچوں کو نہلا دُھلا کر تیار کیا اپنی استعداد کے مطابق حاصل کی گئی چھوٹی سی سوزوکی کار میں بیٹھے اور پنجاب کی ایک تحصیل بورے والا میں اپنے عزیزوں کے ہاں شادی میں شرکت کے لئے روانہ ہوئے لیکن پھر یوں ہوا کہ ساہیوال کے قریب ریاست جی ہاں یعنی ریاست کے ایک ادارے نے اس بے ضرر اور معصوم خاندان کو گھیر لیا اور دن دیہاڑے سر عام ایک شاھراہ پر انھیں بھون کر رکھ دیا اور ان کی لاشیں اسی شاہراہ پر پڑی رہیں۔

یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا

تھوڑی دیر بعد پنجاب حکومت کے بزر جمہر ٹی وی سکرینوں پر ٹوٹ پڑے اور وہی کچھ کہتے رہے جس سے درندوں کا معاشرہ بھی پناہ مانگتا پھرے یعنی اس گاڑی میں موجود خاندان دہشت گرد تھا اور انہیں مارنے والے حق بجانب تھے۔

پتہ نہیں ان لوگوں کا سیاسی عقیدہ طاقت کے مراکز سے چمٹے رہنے کے علاوہ بھی کچھ ہے یا نہیں؟

ورنہ یہی لوگ تھے جنھوں نے ایک انفرادی جرم زینب قتل کے وقت آسمان سر پر اُٹھا لیا تھا۔ جب قصور میں ایک معصوم بچی زینب کا ریپ اور قتل ہوا تھا تو بعض سیاسی جماعتوں کا رویہ یوں تھا جیسے یہ سب کچھ ان کے مخالف اور تب کے برسراقتدار پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے خود کیا ہے۔

جلسے جلوس مار دھاڑ حتٰی کہ جنازے کی امامت بھی قومی اسمبلی کے سامنے قبریں کھودنے والے ایک مولوی نے کی۔ اس معاملے میں ریاست کا کوئی عمل دخل نہیں تھا بلکہ وہ ایک مجرم کا انفرادی فعل تھا۔ تاہم اس کی مدد سے مخالف سیاستدانوں کو مفلوج کرکے رکھ دیا گیا۔ پھر حیرت انگیز طور پر چند دن کے اندر اندر مجرم گرفتار بھی ہوا۔ تفتیشی اداروں خصوصًا پنجاب فرانزک لیبارٹری نے تمام شواہد بھی اکٹھے کیے، مجرم عدالت میں بھی پیش کردیا گیا اور اسے عدالتی فیصلے کی رُو سے پھانسی پر بھی چڑھا دیا گیا۔ گویا ریاستی ادارے اور حکمران ناکامی سے دوچار نہیں ہوئے۔

دوسری طرف ساہیوال واقعہ دن دیہاڑے ہوا۔ اس کے ویڈیوز تک بھی بنے۔ قاتل ریاستی ادارے کے اھلکار ہیں۔ ان کے نام اور پتے تک معلوم ہیں لیکن حکمرانوں کی کارکردگی کہاں ہے؟

قاتل ابھی تک گرفتار کیوں نہیں ہوئے؟ عدالت میں انہیں کیوں پیش نہیں کیا گیا؟

ابھی تک اگر کچھ ہوا ہے تو بس یہی کہ پنجاب حکومت کے وزراء ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوکر قاتلوں کی صفائیاں پیش کرتے ہیں۔

الفاظ کو دلیل بنا کر مقتولوں کے خاندان کے ڈانڈے دہشت گردوں کے ساتھ ملا رہے ہیں۔ طعن و تشنیع کرتے ہیں، جبکہ رات کو حکمران وقت کے نورتن ٹاک شوز میں بیٹھ کر بے سروپا اور جذباتی تقریریں جھاڑتے نظر آتے ہیں۔

جس کی تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ پاکستانیو! گھبرانا نہیں۔

کبھی دل کرتا ہے کہ کوئی یہ مائیک ان کے منہ میں گھسیڑ دے کہ دکھ اور اذیت کے ان لمحات میں کم از کم اس احمقانہ درندگی سے تو نجات مل جائے لیکن کیا کیا جائے کہ اس بد قسمت دیس میں ابھی ایک بھیڑ موجود ہے جو ابھی تک بے شعوری کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے۔ جو ان لوگوں کو سننے کے متمنی ہیں۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ اگر ایک طبقہ حماقت پر کمر بستہ اور بے سروپا جذباتیت سے چمٹا ہوا ہے تو دوسری طرف با شعور اور بیدار مغز طبقات اور سیاسی کارکن تیزی کے ساتھ ابھرتے اور حاوی ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہر سازش اور ہر ظلم کو ماضی کی مانند پردہ اخفاء میں نہیں رہنے دیتے بلکہ اسے توانا ثبوتوں اور طاقتور تجزئیے کے ساتھ حد درجہ مؤثرسوشل میڈیا پر اُچھال دیتے ہیں۔ یہی وہ بدلتا ہوا زمانہ ہے۔

جس نے ساہیوال واقعے کو آگ دکھا دی۔

ورنہ گزرے زمانے میں تو راولپنڈی جیسے شھر کی گنجان آباد بستی ڈھوک حسو کی گلیوں میں پچھلے پہر کوئی خون آشام بلا نازل ہوتی اور گھروں کے اندر محو خواب لوگوں کے سر ہتھوڑے سے کچل دیتی اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوتی۔ بس دوسرے دن اخبارات میں دہشت ناک سرخی لگ جاتی اور بات دب جاتی۔ جبکہ آج ساہیوال واقعے سے متعلق تمام ثبوت اور معاملات ہر اس آدمی کے پاس موجود ہیں جس کی جیب میں ایک عدد سیل فون پڑا ہے۔

اب کسی وزیر مشیر کی چرب زبانی کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ زمانہ تو کب کا بدل چکا ہے سب کچھ واضح ہے۔ اب قاتل بھی معلوم ہیں اور مقتولوں کی بے گناہی کا بھی علم ہے۔ تاہم اگر یہ لوگ اپنی بے سروپا اور فضول باتیں کرنے پر پھر بھی بضد ہیں تو بولتے رہیں کیونکہ اُنہیں سننے اور اُن کی باتوں پر یقین کرنے والے بھی ابھی موجود ہیں۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).