خبردار! یہ نیا پاکستان ہے


عمران خان کی حکومت ”نام بڑا اور درشن چھوٹے“ کی مانند ہے، ریاست مدینہ کی طرز جیسا پاکستان بنانے کا دعویٰ کرنے والی نیازی کی سرکار میں دن دھاڑے معصوموں کو لہو لہان کردیا گیا، پھول جیسے بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، بغیر تصدیق کئیے، بغیر کچھ کہے بغیر کچھ سنے گولیاں مار کر 4 بے قصوروں کو قتل کر دیا گیا۔

حکومت آنے سے پہلے کنٹینر پر چڑھ کر لال و ہرا جھنڈا گلے میں ڈال کر مائیک ہاتھ میں پکڑ کر نیازی صاحب بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے کہ ہم پولیس کو غیر سیاسی بنائیں گے، کوئی مداخلت نہیں ہوگی، کوئی بھی قانون کے شکنجے سے بچ نہیں پائے گا چاہے کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو، اگر کچھ بھی غلط ہوا تو اس کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی، پر افسوس صد افسوس کہ نیازی کے نئے پاکستان میں دن دھاڑے انسانوں کو قتل کر دیا گیا پر ابھی تک حکومت کی جانب سے سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں کیا گیا، جے آئی ٹی بناکر کچھ ہی دیر بعد سربراہ کو تبدیل کرکے پوری جے آئی ٹی کو مشکوک بنا دیا گیا، ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے معصوموں کو وفاقی وزراء دہشتگرد قرار دے کر بری و ذمہ ہوگئے۔

اب نہایت ہی افسوس کا عالم ہے کہ جو شخص حکومت ملنے سے پہلے بڑی بڑی باتیں کیا کرتا تھا اس ہی کی حکومت میں ظلم و ستم کی ایک نئی تاریخ رقم کردی گئی ہے پر حاکم وقت کچھ سننے کے لیے تیار نہیں، یہ بالکل وہی بات ہوگئی کہ دریا میں اترنے سے پہلے بڑی بڑی باتیں کی جائیں اور جو اتر چکے ہوں ان پر طنز و مزاح کے تیر برسائے جائیں اور جب اپنے اترنے کی باری آئے تو جان چھڑائی جائے۔

اب یہ بھی ٹھیک نہیں کہ سارا غصہ صرف عمران خان پر نکالا جائے اس میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کردار بھی غصہ مزید بڑھاتا ہے۔ جس دن یہ واقعہ پیش آیا تو وزیر اعلیٰ میانوالی میں تھے تاہم جب صحافیوں نے جب سانحہ ساہیوال سے متعلق سوال کیے تو وزیر اعلیٰ صاحب کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ ادھر اُدھر دیکھ کر بات گول کر گئے۔ یہ کیسا وزیر اعلیٰ جسے اپنی ذمہ داری کا پتا نہیں۔

ساہیوال سانحہ میں ملوث سی ٹی ڈی کے نقاب پوش اہلکاروں نے جو ظلم ڈھایا ہے ان اہلکاروں کی نشاندہی بھی نہیں کی گئی جبکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے بھی جے آئی ٹی کو مسترد کردیا ہے تاہم اس ساری صورتحال میں صوبائی و وفاقی حکومت کا کردار بھی مشکوک نظر آ رہا ہے اور انصاف ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

اس وقت ملک میں سانحہ ساہیوال کے باعث شدید غم و غصے کی لہر پائی جاتی ہے، ایسے میں وزیراعظم کا تازہ بیان زخموں پر نمک چھڑکنے کے برابر ہے، ایک طرف بے قصور شہریوں کو آپ کی حکومت میں قتل کردیا گیا، معصوم بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ اور بہن کو گولیاں ماری گئیں، دوسری طرف اپنے نا اہلی کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے نیازی صاحب کا بیان ہے کہ ”میں قطر سے ہو آؤں، پھر دیکھتے ہیں“ مجھے ان کے اس بیان پر خواجہ آصف کے القاب یاد آ گئے ”کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے“۔

حکومت ملنے کے بعد ایک ایک کر کے تبدیلی والی سرکار کے پول کھل کر سامنے آ رہے ہیں، پاکپتن کا واقعہ ہو یا اعظم سواتی کی انا کا مسئلہ، حکومت کی نا اہلی و ناکامی پر جگہ کھل کر سامنے آچکی ہے اور افسوس یہ ہے کہ جو شخص یہ کہتا تھا کہ پولیس کو غیر سیاسی کریں گے، یہ سارے سانحات و واقعات اسی صوبے میں ہوئے ہیں جہاں ان کی حکومت ہے۔

حکومتی نا اہلی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اپنی نا اہلی کی ذمہ داری قبول کرنے اور انصاف فراہم کرنے کے بجائے ہر دفعہ کی طرح اپنی ناکامی و نا اہلی کا ملبہ گذشتہ حکومتوں پر ڈال دیا گیا ہے، جبکہ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ جس گھر صف ماتم بچھی ہوئی ہو، بچوں سے ان کی آنکھوں کے سامنے اپنے والدین چھینے گئے ہوں ان سے وزیر اعلیٰ پنجاب پھول لے کر ملنے گئے ہیں اور زبانی جمع خرچ کیا کہ متاثرین کو 2 کروڑ روپے دیے جائیں گے، ذرا ان بچوں کے بارے میں سوچئے، کچھ خدا کے خوف سے بھی ڈریئے عثمان بزدار صاحب۔

بنا کوئی دیر کئیے انصاف کیا جائے، عدالتی کمیشن بناکر ساہیوال سانحہ میں ملوث اہلکاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، جبکہ اس سانحہ میں ملوث ہر اس شخص کو گرفتار کیا جائے۔ صرف زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ عملی اقدامات کیے جائیں، جبکہ اس ساری صورتحال کے بعد بشمول وزیر اعلیٰ، وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کو بھی استعفیٰ دینا چاہیے، جیسا کہ خود عمران خان کہتے رہے ہیں کہ یہ نیا پاکستان ہے اور مدینہ کے طرز جیسی ریاست ہے تو اس سانحہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انہیں خود بھی استعفیٰ دینا چاہیے، پہر ہی ہمیں لگے گا کہ یہ حقیقت میں نیا پاکستان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).