لوگ کیا کہیں گے؟


انسانی زندگی اور مسائل کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ ہر ایک کو زندگی میں مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جہاں کہیں دو یا دو سے زیادہ لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اپنی زندگی میں درپیش مسائل کا تزکرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر مسائل کا تعلق مہنگائی، بے روزگاری، وسائل کی کمی اور غربت جیسے مسائل سے ہوتا ہے۔

لیکن کبھی کسی نے غور کیا ہے کہ ہمارے بیشتر مسائل کے ذمہ دار ہم خود ہی ہیں۔ درحقیقت ہمارے ان حالات کی تمام ذمہ داری ہمارے لاشور میں اٹھنے والے اس سوال پر عائد ہوتی ہے، جس کے جواب کی تلاش میں ہم بے درپے اپنے مسائل میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں اور وہ سوال ہے،

لوگ کیا کہیں گے؟

انھی لوگو ں کی خاطر ہم نے اپنی زندگیوں کو انتہائی مشکل بنا لیا ہے۔ آج کل ہر ایک مہنگائی کا رونا روتا نظرآتاہے اور اس کی بڑی وجہ ہما راپر تعش معیار زندگی ہے۔ صرف دنیا دکھاوے کے لئے ہم وہ چیز حاصل کرنا چاہتے ہیں جو ہماری پہنچ سے دور ہوتی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ معاشرے میں عزت وہی پاتا ہے جس کا اسٹیٹس اونچا ہوتا ہے۔ خیر یہ ایک الگ بحث یہاں بات ہورہی ہے ان لوگوں کی جن کے ڈر سے اپنے اخراجات اپنے وسائل سے کہیں زیادہ بڑھالئے ہیں۔

انھی لوگو ں کی خاطر تو والدین اپنے بچوں کی شادیوں پر قرض لے کر بھی خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتے، جہیز اور بری کے نام پر بے دریغ پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔ مہنگے مہنگے ملبوسات اور جیولری تیار کی جاتی ہے، اور آج کل تو ان ملبوسات کی قیمتیں بھی لاکھوں میں ہیں۔ اور یہ وہ جوڑے ہوتے ہیں جو ایک یا دو دفعہ سے زیادہ زیب تن بھی نہیں کیے جاتے۔ یہ بات سب جانتے ہیں مگر صرف اور صرف اس وجہ سے ایس اکترے ہیں کہ اگر ایسا نہیں کریں گے تو۔

لوگ کیا کہیں گے؟

شادی کے کھانوں پر بے تحاشا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے، چار سے پانچ ڈشس نہ ہوں تو کھانے والے کو مزہ ہی نہیں آتا لاکھوں روپیہ اس ایک دن کے کھانے اور شادی ہال کی مد میں خرچ ہوجاتا ہے اور لوگ پھر بھی یہی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ کھانے کا ذائقہ اچھا نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی ہم ایس اکرتے ہیں، کیونکہ اگر ایسا نہیں کریں گے تو، لوگ کیا کہیں گے؟

ٓاس کے علاوہ بھی مسائل ہیں جن میں، یہ لوگ، ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ بہت سے خاندان ایسے بھی ہیں جو لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے باوجود صرف اس لیے نوکری کی اجازت نہیں دیتے کہ

لوگ کیا کہیں گے کہ بیٹی کی کمائی کھارہے ہیں، اور وہ لڑکیاں جو گھروں سے باہر نکلتی ہیں نوکری یا پڑھائی کے سلسلے میں ان میں کئی جنسی ہراسگی کا مسلسل شکار ہونے کے باوجود صرف اس لیے آواز نہیں اٹھاتیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔

والدین اپنے بچوں کے رشتوں کے سلسلے کے لیے بے حد پریشان رہتے ہیں، رشتوں کی تلاش میں خوبصورتی، مال ودولت اور سوشل اسٹیٹس کو اولیت دیتے ہیں۔ ہم پلہ رشتے نہ ملنے کے باعث بہت سی لڑکیاں شادی کی عمر سے نکل جاتی ہے اور بہت سی تو نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتی ہیں حالانکہ ایک اچھے رشتے کے لیے معقول آمدنی اور شرافت سہر فہرست ہونا جاہیے، مگر والدین ایسا کر نہیں کرسکتے کیونکہ لوگ کیا کہیں گے؟

ہماری زندگی میں یہ لوگ نامی خلائی مخلوق جونک کی طرح شپکی ہوئی ہے جس کی وجہ سے سانس لینا بھی دشوار ہوگیاہے۔ ہر قدم پر کانوں میں صرف یہی بازگشت سنائی دیتی ہے کہ،

لوگ کیا کہیں گے؟

آخر یہ لوگ ہیں کون؟ یہ لوگ بھی تو ہم ہی ہیں جو آج کسی دوسرے کے فعل پر انگلی اٹھاتے ہیں، پھر جب ہماری باری آتی ہے تودوسرے لوگ اس تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں۔

اصل میں لوگ کچھ نہیں کہتے، درحقیقت ہم اپنی بے جا خواہشات کی تکمیل کی خاطر لوگوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اپنے نفس کو تسکین پہنچانے لے لیے ہم یہ تمام کام کرتے ہیں لیکن ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے اس کا الزام لوگوں پر ڈال کر خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

خدارا اپنی زندگیوں سے اس سوال کہ لوگ کیا کہیں گے؟ کو کھرج کر نکال پھینکیں۔ لوگوں کے خوف سے چھٹکارا پائیں اور اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کریں۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ہمارے آدھے سے زیادہ خودساختہ مسائل خود بخود حل ہوپائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).