میری ماں میری دوست نہیں


ایک معصومیت سے بھری بچی کا پندرہ سال کی عمر میں اپنی شادی کا سن کر معصومانہ انداز سے والہانہ سوال اپنی لاچار اماں سے :

”سب بڑے ہوتے ہیں تو ہی شادی/ نکاح کے بندھن میں باندھے جاتے ہیں نا اماں؟ “

کیوں کہ یہ ایک ایسا تعلق ہے جس میں بہت بلوغت چاہیے ہوتی ہے۔ ایک ایسا ناطہ ہے جس میں بے حد پختگی چاہیے ہوتی ہے۔ تاکہ اسے نبھایا جا سکے۔ تاکہ اسے پوری طہارت سے اپنایا جا سکے۔

”میں نے سنا ہے، سب دلہنیں سرخ لباس پہنتی ہیں۔ ہے نا اماں؟ میں تو سکول جاتی ہوں نا اماں! میں نیلے رنگ کا یونیفارم پہنتی ہوں۔ مجھے کیوں پہنایا جائے گا سرخ عروسی لباس؟ “

لڑکیوں کی تعلیم مکمل ہونا اشد ضروری ہے۔ کیوں کہ معاشرہ ہو یا گھر ہر بگڑے عمل کی درستگی علم کے ذریعے ہی کی جا سکتی ہے۔ اور سب سے اہم بات، وہ عورت ہی ہے جو ایک مرد کی پرورش کرتی ہے۔ وہ عورت ہی ہے جو اپنے بیٹے کو اخلاقیات سے آگاہی کراتی ہے۔ وہ اسے چوکس کرتی ہے کہ کیا تمہارے لئے درست ہے اور کیا غلط۔

”میں تو بہت چھوٹی ہوں اماں! میری شادی کیوں ہو گی؟ بابا مذاق کر رہے تھے نا؟ میں گھڑیاں سے کھیلتی ہوں اور ان کی شادیاں کراتی ہوں۔ اس لئے بابا اپنی گڑیا سے مذاق کر رہے تھے نا! وہ ایسا نہیں کریں گے نا اماں!

میری ساری سہیلیاں گھڑیاں سے کھیلتی ہیں اور ان کو رخصت کرتی ہیں اماں! ان کے تو باب پھر ان کی شادی نہیں کرتے؟ میں ہی کیوں اس سزا کو کاٹوں؟ میں تو سچ مچ کی گڑیا ہوں۔ میں سانس لیتی ہوں، میرے خواب ہیں اور وہ جیتے ہیں میری طرح۔ ”

خواب دیکھنا ہر کسی کا بنیادی حق ہے۔ ان خوابوں کی تعبیر کو تحفظ دینا ماں باب کا کام ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کے خواب بھی ان کی طرح نازک ہوتے ہیں اور انتہائی گہرائی رکھتے ہیں۔ ان کے ہر خواب میں مرد کی برابری کرنا لازم ہوتا ہے۔ ان کے خوابوں کو پناہ دینا، ان کے خوابوں کو زندہ کرنا، اجاگر کرنا والدین کے فرائض میں شامل ہے۔ بیٹی اور بیٹے میں امتیازی سلوک ختم کرنے کا بھی یہ ایک درست طریقہ ہے کہ دونوں کے جائز خوابوں کو والدین پرواز کے لئے پر دیں۔

”اماں بولو نا! توں کچھ بولتی کیوں نہیں؟ کیوں چپ ہو؟ کیوں ان مجبور عورتوں کی طرح شرافت کی چادر اوڑھے کھڑی ہو؟ کیوں میرے ساتھ اڑ کر راکھ نہیں ہو جاتی میرے خوابوں کی طرح؟

مجھ سے میرا تھیلا، کتاب، علم و قلم چھینا جا رہا ہے۔ میرے بچپن کو اس سرخ لباس میں تولا جا رہا ہے۔ توں پھر بھی چپ رہے گی اماں! کچھ نہیں بولے گی؟ ”

کم از کم وہ عورتیں (مائیں، بہنیں، خالا، پھوپھی، تائی، دادی، نانی) ہی ایسی بچیوں کا ساتھ دیں۔ چلو کوئی اور نا سہی مائیں تو بیٹیوں کے لئے کچھ کر لیں۔ ان کا ساتھ دیں۔ ان کے جذبات کو سمجھیں۔ معصوم بچیوں کی دبی سہمی آواز کو بلند کریں۔ ان کی آواز وہ خود بنیں۔

معصوم و لاچار بچی کے آخری چند رلا دینے والے الفاظ:

”آخر میرا قصور کیا ہے، اماں؟

آخر میں ہی کیوں؟ کیوں اماں؟ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).