پنجر: بٹوارے کی کہانی امرتا پریتم کی زبانی


بٹوارے کی داستان ہو اور امرتا پریتم اسے بیان کرے تو وہ دوآتشہ ہو جاتی ہے۔ دکھوں بھری کہانی کو امرتا پریتم ایسی حساس دل رکھنے والی ادیبہ لکھے تو لفظ لفظ لہو بن جاتا ہے۔ سنتالیس میں ہونے والی تقسیم کے پس منظر میں لکھے گئے شہرہ آفاق ناول ’پنجر‘ کے صفحات سے ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کا خون رستا دکھائی دیتا ہے۔

یہ تقسیم سے قبل گجرات (پاکستان) کے گاؤں چھتوانی میں بستی ہندو لڑکی پارو کی کہانی ہے۔ جسے ایک مسلمان نوجوان رشید خاندانی رنجش کا بدلہ لینے کے لیے اغوا کر لیتا ہے۔ پارو رشید کے چنگل سے بھاگ کر گھر لوٹتی ہے تو ماں باپ اسے بدنامی کے ڈر سے قبول نہیں کرتے۔ وہ مجبور ہو کر رشید کے پاس واپس چلی جاتی ہے اور اسے نہ چاہتے ہوئے بھی رشید سے نکاح پڑھنا پڑتا ہے۔ وہ پارو سے حمیدہ بن جاتی ہے۔ حالات کے بے رحم بہاؤ میں بہتی عمر بتا رہی ہوتی ہے کہ سنتالیس کے فسادات پھوٹ پڑتے ہیں۔ تقسیم کی خون ریزی میں وہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر مصیبت ماری لڑکیوں کی مدد کرتی ہے اور ان کو بچھڑے خاندانوں سے ملانے کی تگ و دو کرتی ہے۔

امرتا پریتم گجرانوالا میں پیدا ہوئی تھیں۔ تقسیم کی خونی لکیر عبور کرتے ہوئے امرتا کی روح پہ گہرے گھاؤ لگے تھے۔ بٹوارے کے جسم سے پھوٹتی لہو کی ندی میں آہ و بکا کرتی خواتین کو ڈوبتے امرتا نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ وہ منظر ہمیشہ کے لیے ان کی آنکھوں میں ٹھہر گئے۔ جرم بے گناہی کی اندوہناک سزا پاتے بے بس لوگوں کی آہیں وہ عمر بھر سنتی رہیں اور ان آہوں کو لفظوں کی مالا میں پرو کر اپنی کہانیوں میں سجاتی رہیں۔ سنتالیس میں امرتا پریتم نے حوا کی بیٹی کو لٹتے، مرتے، اجڑتے، روتے اور سسکتے دیکھا تو وارث شاہ کو ان الفاظ میں پکارا:

اج آکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچوں بول

تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول

اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لکھ لکھ مارے وین

اج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن

اٹھ درد منداں دیا دردیا اٹھ تک اپنا پنجاب

اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب

امرتا پریتم نے تقسیم کے حالات مذہبی تعصب کی عینک لگائے بغیر بیان کیے ہیں۔ اس کے کردار حالات کے مقابلے میں بطور انسان لڑتے اور مرتے نظر آتے ہیں نا کہ بطور مسلمان، سکھ یا ہندو۔

’پنجر‘ میں ہم دیکھتے ہیں کہ پنجاب کی دھرتی پہ بسنے والوں کا سب کچھ بٹ گیا۔ یہ بٹوارہ صرف زمین کا نہیں تھا بلکہ یہ رشتوں، محبتوں، خاندانوں، مذہب اور پہچان کا بھی بٹوارہ تھا۔

لفظ پنجر (ہڈیوں کا ڈھانچہ) ہندوستان یا پنجاب کی علامت ہے جس کو بٹوارے کے خوں ریز طوفان نے اجاڑ دیا۔ اس کے جسم کو نوچ ڈالا۔ اس کے رگ و پے میں دوڑتی زندگی چوس لی۔ صرف پنجر چھوڑ دیا۔

ناول میں عورتوں کے بیہمانہ استحصال کو بے باک انداز میں دکھایا گیا ہے۔ ’پنجر‘ عورت کا بھی استعارہ ہے جسے معاشرے کے بے رحم رواجوں اور ظالم مردوں نے گدھوں کی طرح نوچ کھایا ہے۔ عورت ایک بے جان گڑیا ہے جس سے مرد کھیلتے پھرتے ہیں اور من چاہا سلوک کرتے ہیں۔ خاندانی دشمنیوں کی بھینٹ بھی بے چاری عورت (پارو) ہی چڑھتی ہے۔ اپنے بزرگ مردوں کے گناہوں کی سزا پارو کو ملتی ہے اور اس کی زندگی نا حق اجڑ جاتی ہے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ پارو کو رشید نے اغوا کیا۔ پارو پہ ظلم ہوا۔ پھر پارو کو گھر والوں نے گھر رکھنے سے انکار کر دیا۔ مظلوم لڑکی پہ ایک اور ظلم ہوا۔ عورت اغوا اور زیادتی کا بھی نشانہ بنے اور پھر بے گناہ ہونے کے باوجود خاندان اور معاشرے کے نفرت میں بجھے تیر بھی اپنے جگر پہ کھائے۔ جبکہ مرد اغوا اور زیادتی جیسے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد بھی قابل عزت اور بے داغ ٹھہرتا ہے۔

تقسیم میں بے شمار عورتوں کو اغوا کیا گیا۔ ان کو جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ زبردستی ان کے مذہب اور نام بدل دیے گئے۔ ان کے ساتھ جبری شادیاں کی گئیں۔ اپنے ہی گھر والوں نے عزت کی خاطر مار ڈالا یا جلا دیا۔ عورتوں کے جسم کو عزت کے ساتھ جوڑا جاتا رہا ہے۔

فسادات کے بعد خاندانوں سے بچھڑی عورتوں کو سرحد کے دونوں پار لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کر واپس لے گئے۔ ان لڑکیوں کو گھر والوں نے سینے سے لگایا جو زیادتیوں کا شکار ہوئیں، کسی کی بیویاں بنیں اور غیروں کے بچے جنے۔ جب آگ ہر آنگن میں لگی تو نام نہاد عزت کے معیار بھی جل کر راکھ ہو گئے۔ پارو یہ سب دیکھ کر اپنی قسمت کو کوستی ہے کہ جب وہ گھر لوٹی تھی تو اس کے راستے میں سماج کے خود ساختہ رواج ناگ بن کر پھن پھیلائے کھڑے ہو گئے تھے۔ حالانکہ وہ اغوا ہوئی تھی گھر سے بھاگی نہیں تھی۔ اور رشید نے جنسی زیادتی بھی نہیں کی تھی۔

”پارو کے دل میں ہوک سی اٹھی۔ اس کے لیے ساری دنیا کے دھرم اس کے راستے میں کانٹے بن کر بچھ گئے تھے۔ اس کے ماں باپ اس کو واپس نہیں لیتے تھے۔ اس کے سسرال والے اسے واپس نہیں لیتے تھے۔ آج سب مذہبوں کے غرور ٹوٹ گئے ہیں۔ “

ناول میں دکھایا گیا ہے کہ پارو اور دوسری لڑکیاں اپنے ہی اغوا کاروں اور دشمنوں کے ساتھ سونے پہ مجبور ہیں۔ جس نے زندگی برباد کی اسی کے بچوں کو کوکھ میں پالنا ہے۔ جنہوں نے جینا حرام کر دیا انہیں کے ساتھ جینا ہے۔ اور کوئی بھی راستہ کھلا نہیں۔ اس سے بڑی مجبوری اور کوئی ہو سکتی ہے؟

امرتا پریتم نے مذہب کی بنا پر پلتی نفرت کی تصویر بھی دکھائی ہے۔ حیرت کا اظہار بھی کیا ہے کہ کتنی عجب بات ہے کہ انسانوں سے محبت، بھلائی اور امن کا درس دینے والے دھرم ہی انسانوں سے نفرت کی وجہ کیسے بن گئے۔ جس کی آگ میں سبھی لوگ جھلس گئے خواہ وہ کسی بھی مذہب کے پیروکار تھے۔ حمیدہ ہو یا پارو، رام چند ہو یا رشید سبھی اس بھٹی میں جل گئے۔

تقسیم کے فسادات میں پارو رام چند (سابقہ منگیتر) سے ملتی ہے جو رتووال گاؤں سے سرحد پار بھارت جانے والے قافلے میں جا رہا تھا۔ پارو ایک ہندو لڑکی کو گھر میں پناہ دیتی ہے اور بھارت جانے والے قافلے میں چھوڑنے جاتی ہے۔ رام چند سے اسے معلوم ہوتا ہے کہ رام چند کی بہن لاجو ( جو پارو کی بھابھی بھی ہے ) لا پتہ ہو گئی ہے۔ رام چند التجا کرتا ہے کہ پارو ہر حال میں لاجو کو کھوج نکالے۔

پارو بھیس بدل کر لاجو کا سراغ لگاتی ہے۔ رشید کی مدد سے اسے رتووال سے اپنے گاؤں سکڑیالے لے جاتی ہے۔ بعد میں رام چند اور پارو کا بھائی لاجو کو لینے لاہور آتے ہیں۔ پارو ان کو روانہ کرتی ہے اور خود پاکستان میں رشید اور بیٹے کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ پارو سوچتی ہے

”چاہے کوئی ہندو لڑکی ہو چاہے مسلمان۔ جو بھی لڑکی ٹھکانے پر واپس پہنچ رہی ہے سمجھو کہ اسی کے ساتھ پارو کی روح بھی ٹھکانے پر پہنچ رہی ہے۔ “

پنجر ناول پہ اسی نام کی بالی ووڈ فلم 2003 میں بنی۔ جس میں دینہ سے ہجرت کرنے والے شاعر گلزار کے گیت اور بیک گراؤنڈ آواز بھی شامل ہے۔ گلزار کی آواز میں ہجرت اور بٹوارے کا درد بھی شامل ہے۔ فلم دیکھنے لائق ہے۔ اس میں کہانی کو حقیقی انداز میں دکھایا گیا ہے۔ فلم میں جگجیت سنگھ کی گائی اور گلزار کی لکھی غزل بھی ہے۔

’ہاتھ چھوٹے بھی تو رشتے نہیں چھوٹا کرتے

وقت کی شاخ سے لمحے نہیں ٹوٹا کرتے ’

امرتا پریتم اور گلزار ایسے لوگ محبت کے رشتوں پہ ایمان رکھتے ہیں۔ نفرت کا بیج بونے والوں سے نفرت کرتے ہیں۔ بٹوارے کے بعد بھی وہ دونوں دیسوں کے درمیان امن و آشتی کے خواہاں رہتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ہاتھ اگرچے چھوٹ گئے ہیں مگر رشتے نہیں ٹوٹنے چاہیں۔

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 77 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti