سر زمینِ بے آئین کے مجرم محافظ


ساہیوال میں ریاستی دہشتگردی کے المناک واقعے نے روح تک کو لرزا کے رکھ دیا ہے اس جانگسل سانحے پر بھی ماضی میں پیش آنے والے سانحات کی طرح ہر آنکھ اشکبار رہی۔

ہمارے حرفِ تسلی و ہمدردی ہمارے احتجاج ہماری مذمت اپنی جگہ درست  مگر یہ سب اس سانحے سے متاثرہ یتیم بچوں کے دکھ کا مداوا ہرگز نہیں بن سکتے۔ اس خوفناک واقعے میں معصوم بچوں کے والدین اور بہن ہی کو قتل نہیں کیا گیا بلکہ ان کی معصوم مسکراہٹ۔ خواہشات اور بچپن کی خوبصورت رنگینیوں کو بھی قتل کیا گیا ہے۔ اس سانحے کے بعد ہر شخص کے خوف و پریشانی میں یوں بھی اضافہ ہوا ہے کیونکہ گولیاں مارنے والے دہشت گرد نہیں تھے بلکہ وہ تھے کہ جن کی آئینی ذمہ داری ان سب افراد کی جان کی حفاظت کرنا تھی۔ اس مجرمانہ کارروائی نے حفاظتی اداروں کی کارکردگی کو پھر سے مشکوک کر دیا ہے اور عوامی اعتماد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

اس سانحے سے بھی ہر ذہن میں کئی سوالات پیدا ہوئے یہ سانحہ ایسے وقت میں رونما ہوا کہ جب ایک طرف پارلیمنٹ میں فوجی عدالتوں کی توسیع کا ایشو چل رہا ہے جو ابھی تک واضح حل بھی نہیں ہوا ادھر اس سانحے کے بعد حکومت پر مجرموں کے خلاف فوری کارروائی کا دباؤ بھی بڑھا ہے اور جلد سزا کا تقاضا بھی زور پکڑ گیا ہے بہرحال اس سانحے میں بھی سمجھ رکھنے والوں کے لیے واضح نشانیاں موجود ہیں۔ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ وطنِ عزیز میں حفاظتی اداروں کی یہ کوئی پہلی منفرد کارروائی بھی نہیں ہے بلکہ اس سے ملتے جلتے سینکڑوں سنگین واقعات اداروں کی طرف سے خیبر پختون خواہ سندھ اور بلوچستان میں عرصہ دراز سے ہو رہے ہیں اور یہ کارروائی بھی اسی تسلسل سے ملتی جلتی ایک کڑی ہے۔

سرفراز شاہ کا رینجر اور نقیب اللہ محسود کا پولیس کے ہاتھوں قتل ہونا بھی اسی طرز ہی کے سنگین واقعات تھے۔ نقیب اللہ محسود کی دو معصوم بیٹیاں بھی اس طرح ریاستی اداروں کے ظلم سے یتیم ہو چکی ہیں۔

اسی طرح مسنگ پرسنز کا معاملہ ہو تو بلوچستان کی انسیٰ بھی تو اپنے بھائی کی غیر قانونی جبری گمشدگی کے خلاف سراپا احتجاج تھی۔ مسخ شدہ لاشوں کا نوحہ پڑھنے والے بھی تو یہی تقاضا کر رہے ہیں کہ ان کے بھائی بیٹے یا باپ کی شناخت تو عمل میں لائی جائے۔ ان کے ورثا کو مقتول کا جرم تو معلوم ہو کہ آخر کاہے کی پاداش میں نعش کا پیٹ چاک کر کے پھر اسے پھینک دیا جاتا ہے۔

دوسرے صوبوں میں چادر و چار دیواری کے تقدس کی پامالی کا گلہ کرنے والے بھی زیادہ تعداد میں موجود ہیں اور یہ سب ایسے متاثرہ افراد ہیں جو اپنے بنیادی آئینی اور انسانی حقوق کا تقاضا کر رہے ہیں اور ہزاروں متاثرین افراد ان صوبوں میں عرصہ دراز سے یہ صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ مگر پتہ نہیں کیوں ان متاثرین کی اٹھائی جانے والی آوازوں کی شنوائی تک نہیں ہوتی ان پر ہمارے دل نرم بھی نہیں ہوتے حکمرانوں کو ترس بھی نہیں آتا بلکہ تب ریاستی اداروں کی مجرمانہ بدمعاشی کا سرِ عام دفاع کیا جاتا ہے۔ ایک طرف میڈیا متاثرین کے مؤقف کو کوریج تک نہیں دے پاتا مگر دوسری طرف انہیں دہشتگرد۔ دشمن کا آلہء کار۔ غدار یا ایجنٹ جیسے القاب سے نواز دیا جاتا ہے۔

جبکہ بات آسان سی سیدھی اور سادی ہے کہ بیشک ان کے رفقا ان کے عزیز مجرم سہی مگر ان کو سزا دینے کا طریقہء کار تو آئینی ہو۔ ان کے خلاف قانونی عملداری کی جائے نا کہ ادارے خود قانونی طور پر جرم سرزد کرتے ہوئے کسی جرم کے خاتمے کی کمر کس لیں۔

سانحہِ ساہیوال کے دل سوز واقعے کے بعد اس عزم کی ضرورت ہے کہ آئندہ اس جیسے واقعات سے عوام کا تحفظ یقینی بنایا جائے اس کے لیے جامع منصوبہ بندی ٹھوس اور فوری اقدامات کیے جائیں۔ اگر سانحہ ساہیوال جیسے واقعات ملک کے کسی دیگر حصے میں بھی ہوں تو ماورائے عدالت قتل و غارت گری اور کارروائی پر ملوث اہلکاروں کو سزا دی جائے تاکہ یہ سلسلہ مستقل طور پہ بند ہو سکے۔ حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ وہ قانونی عملداری کو ممکن بناتے ہوئے اداروں پر بھی قانون کے نفاذ کو یقینی بنائے تاکہ عوام محافظ اداروں کو اپنا محافظ سمجھیں نا کہ ان سے خوف کھانے لگ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).