خدیجہ کیس: جج نہیں فیصلہ بولتے ہیں


بالآخر خدیجہ کو انصاف مل گیا۔ جسٹس کھوسہ نے چند منٹوں کے اندر انصاف فراہم کر دیا۔ ثاقب نثار تو ڈیم کا چندہ جمع کرتے رہے۔ اسپتالوں پر چھاپے مارتے رہے۔ سیاسی تقریریں کرتے رہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمات کے انبار لگتے رہے۔ ثاقب نثار نے چیف جسٹس کے عہدے کو ایک طرح سے ڈسٹرکٹ ناظم کا عہدہ جیسا بنا کے رکھ دیا تھا۔ اب نظر آ رہا ہے یہ بابا رحمتے کی پنچایت نہیں، منصف اعظم کی عدالت ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی قانون کی سٹوڈنٹ خدیجہ کو 5 سال قبل کلاس فیلو شاہ حسین نے شادی سے انکار پر چھریوں سے حملہ کر کے شدید گھائل کر دیا تھا۔ خدیجہ کے جسم پر چھریوں کے 23 زخم لگائے گئے تھے۔ اس کو چھوٹی بہن کے سامنے لہولہان کر دیا تھا۔ ملزم کا باپ با اثر وکیل تھا۔ پہلے پہل تو ایف آئی آر بھی نہیں کٹ رہی تھی۔ پھر پولیس کیس کو آگے بڑھانے میں لیت و لعل سے کام لیتی رہی۔ پھر جب جیو سے شاہ زیب خانزادہ نے پے در پے پروگرام کیے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے۔

مگر پھر بھی سب کچھ ٹھیک نہ تھا۔ خدیجہ اور اس کے گھر والوں پہ دباؤ ڈالا گیا۔ صلح کے لئے آفرز کی گئیں۔ لڑکی با ہمت تھی، مانی نہیں۔ مگر انصاف بھی نہ ملا۔ با اثر باپ نے کسی طرح انصاف کا پلڑا اپنے حق میں جھکا لیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے ملزم شاہ حسین کو با عزت بری کر دیا۔ خدیجہ کے جسم کے 23 زخم عدالت کو نظر ہی نہ آئے۔ مظلومہ و مضروبہ خدیجہ سپریم کورٹ گئی۔ وہاں بابا رحمتے ڈیم کے ٹھیکے پہ گئے ہوئے تھے۔ کیس لٹکتا رہا۔ آخر کار 17 جنوری کو بابا رحمتے عہدے سے سبکدوش ہو گئے۔ سپریم کورٹ چھاپا مار فورس سے پھر عدالت میں تبدیل ہوا۔ نئے چیف جسٹس نے خدیجہ کا کیس لگا دیا۔ آج سپریم کورٹ میں پہلی سماعت ہوئی۔ آج ہی فیصلہ ہوا اور آج ہی انصاف ملا۔ ملزم کو 5 سال کے لئے جیل بھیج دیا گیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ ”دانشور جج“ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ قانون دان ہی نہیں اپنی ذات میں ایک فلسفی بھی ہیں۔ مصنف بھی ہیں۔ 4 کتابیں تصنیف کی ہیں۔ لٹریچر سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ انگریزی زبان و ادب پر غیر معمولی گرفت رکھتے ہیں۔

قانون کے فلسفے کو جاننے والے ایک دانشور جج سے یہی توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ چیف جسٹس کے منصب جلیلہ کے ساتھ انصاف کریں گے۔ جسٹس کھوسہ نے 17 جنوری کو اپنے پیشرو جسٹس ثاقب نثار کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں اپنے پیشہ وارانہ عزائم ظاہر کر دیے تھے۔ پہلے تو انہوں نے یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا کہ ”میں بھی ایک ڈیم بنانا چاہتا ہوں“ اگلے ہی لمحے کہا کہ ”ایسا ڈیم جو مقدمات کی سماعت میں طوالت کو روکے، ایسا ڈیم جو انصاف کی فراہمی میں تاخیر کو روکے، ایسا ڈیم جو جھوٹی شہادتوں کے آگے بند باندھ لے۔ “

اگلے دن انہوں نے حلف اٹھایا۔ ایوان صدر سے سپریم کورٹ پہنچے۔ بطور چیف جسٹس پہلے کیس کی سماعت کی اور وہیں فیصلہ سنا دیا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی ریمارکس دیے کہ قتل سمیت جرائم کے کیسز ایک سے دو ہفتے میں نمٹائے جا سکتے ہیں۔ ان کے فیصلے دیے جا سکتے ہیں۔ جسٹس کھوسہ نے یہ دلچسپ ریمارکس بھی دیے کہ مقدمات کی سماعت دو صورتوں میں ہی ملتوی ہونی چاہیے یا جج مر جائے یا وکیل اللہ کو پیارا ہو جائے۔ اس سے ہٹ کے تاریخ پہ تاریخ دیے جانے کا کوئی جواز نہیں۔ کیونکہ مشہور میکسم کے مطابق انصاف میں تاخیر انصاف کی موت ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ اپنے کیریئر میں 55 ہزار کیسز نمٹا چکے ہیں۔ گزشتہ 4 سالوں میں 10 ہزار مقدمات کے فیصلے سنا چکے ہیں۔ ان کے کئی فیصلے تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ کئی فیصلے عدالتی نظیر کا روپ دھار چکے ہیں۔ نواز شریف کے خلاف مشہور زمانہ پاناما کیس کی سماعت کرنے والے 5 رکنی بنچ کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ ہی کر رہے تھے۔ فیصلے میں انہوں نے ناول ”گاڈ فادر“ کا حوالہ دے کر تہلکہ مچایا تھا۔

مذکورہ عدالتی فیصلے میں ناول سے یہ فقرہ مستعار لیا گیا کہ ”دولت کے ہر بڑے ذخیرے کے پیچھے جرم ہوتا ہے“ سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی سزائے موت پر اپیل انہوں نے ہی مسترد کی تھی۔ یعنی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اپنی ذات میں ایک بولڈ آدمی ہیں۔ دانشور انسان ہیں۔ لٹریچر پڑھنے اور اس پر عبور رکھنے والے شخص ہیں۔ ایک منجھے ہوئے قانون دان تو ہیں ہی۔ ان تمام خوبیوں کا پیکر جج بلا شبہ بہترین اور متوازن منصف ہو سکتے ہیں۔ سو امید ہے جسٹس آصف سعید کھوسہ مسند منصف کے ساتھ انصاف کریں گے۔ اسے انصاف فراہم کرنے والی کرسی بنا دیں گے۔ چیف جسٹس کے عہدے کا وقار بحال کریں گے۔ بابا رحمتے نہیں، منصف اعظم پاکستان بن کر کام کریں گے، فیصلے دیں گے، انصاف فراہم کریں گے۔ خود نہیں بولیں گے بلکہ ان کے فیصلے بولیں گے۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen