وزیر اعلی عثمان بزدار ہی رہیں گے، عمران خان کا فیصلہ


سب سے پہلے تو یہ خبر پڑھ لیں کہ وزیر اعظم عمران خان سانحہ ساہیوال کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی پشت پر زیادہ مضبوطی سے کھڑے ہیں ہیں لہذا عثمان بزدار کہیں نہیں جا رہے، کپتان کے ایک قریب ترین ذریعے نے مجھ سے بات کرتے ہوئے جتنی شدت سے عثمان بزدار کا دفاع کیا اس سے مجھے یوں محسوس ہوا کہ تحریک انصاف کے اپنے ممبران اسمبلی جتنا چاہیں شور مچا لیں، وہ اتنے ہی بے بس ہیں جتنے ہماری جمہوریت میں ارکان اسمبلی ہو سکتے ہیں، امید ہے کہ انہیں اب سکون ہو گا، چاہیں تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی سے اب وہ گلے مل کر گانا گا سکتے ہیں، تیرا غم میرا غم اک جیسا صنم۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جہاں خود پنجاب اسمبلی میں تحریک کے ارکان اور مقامی لیڈر، بزدار صاحب کا مذاق اڑاتے ہوں، ان پر شرمندہ پھرتے ہوں اور کسی محفل میں ان کا دفاع کرنے سے گریز کر کے محض مسکرانے پر گزارا کرتے ہوں، بیوروکریسی اپنے وزیر اعلیٰ کا مذاق اس طرح اڑا رہی ہو کہ بیوروکریٹس کے اپنے واٹس ایپ گروپوں میں روزانہ بزدار کے تازہ لطیفے چل رہے ہوں، وہاں کام کیسے چلے گا۔ جواب ہے کہ نہیں چلے گا البتہ رینگتا رہے گا۔

گزشتہ روز گورنر پنجاب چوہدری سرور سے چائے کی نشست رہی، برادر عزیز ذوالفقار راحت ایسی محافل بپا کرنے کے شوقین ہیں، ایک ساتھی نے سوال کیا کہ پنجاب میں کتنے پاور سنٹرز ہیں؟ گورنر نے کم از سات یا آٹھ منٹ طویل جواب دیا جس کا لب لباب تھا کہ وزیر اعلیٰ ہی واحد طاقت کا سر چشمہ ہیں، اب میں نے سوال اٹھایا کہ آپ کے کولیشن پارٹنر ق لیگ کے لیڈر کامل علی آغا کیوں کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن والوں نے انہیں وزارت اعلیٰ کی آفردے ڈالی ہے اور یہ کہ پنجاب اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کہ مطابق ایسا ممکن ہے۔

گورنر کا جواب دلچسپ تھا، ”میں یہاں بیٹھا ہوں اور جب تک میں ہوں پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت نہیں گرنے دوں گا، ق لیگ والے اپنا ریٹ بڑھانے کے لئے ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں“۔ فطری طور پر اگلا سوال تھا کہ ابھی تو آپ نے طویل جواب دیا کہ طاقت ساری وزیر اعلیٰ کے پاس ہے، پھر یہ آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ آپ پنجاب حکومت نہیں گرنے دیں گے، جواب ایک مسکراہٹ کے سوا کیا ہو سکتا تھا سو وہی ملا۔

میں یہاں وضاحت کر دوں کہ یہ خبریں تحریک، کے حوالے سے ہے اور اعلیٰ ترین سطح پر فیصلوں کی ہیں جس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ کامیاب بھی ہوں گے اور دوسرا یہ کہ تحریک، صرف اپنے معاملات میں فیصلے کر سکتی ہے دوسروں کے نہیں، باقی کھلاڑی اپنے داؤ خود کھیلیں گے۔

عمران خان سے بہتر، تحریک کے لیڈروں کے بارے کون جانتا ہوگا، ان کے علم میں ہے کہ ان کے بونوں کی فوج میں کوئی اتنا غیرت والا نہیں کہ اصولوں کی خاطر، پارٹی میں سوال اٹھائے کہ میرٹ میرٹ کی گردان لگانے والا، پارٹی لیڈرشپ کی آمریت کے خلاف دو دہائیوں سے لگا تار بول کر اس پالیسی کے خلاف ووٹ حاصل کرنے والا، اپنی ہی پارٹی میں ایسی بد ترین آمریت کیسے نافذ کر سکتا ہے۔

ماہر نفسیات کے مطابق اگر کوئی بد نصیب بچہ غیر معمولی سخت گیر والدین کی سختی سہتا بڑا ہوتا ہے تو سختی اور ظلم سہنے اور اس رویے سے شدید نفرت ہونے کے باوجود آخر کار وہ خود ویسا ہی والد بنتا ہے یا وہی کرادر بن جاتا ہے جس سے اس نے خود ساری عمر نفرت کی ہوتی ہے یا جس کا شکار وہ خود رہا ہوتا ہے۔

عمران خان جس طرح اپنی پارٹی کے معاملات چلا رہے ہیں اس سے تو یہ ہی لگتا ہے کہ وہ در اصل، نواز شریف یا آصف زرداری کی پارٹی آمریت والی پالیسی کے کبھی خلاف تھے ہی نہیں بلکہ وہ تو اس پر رشک کرتے تھے، اسی لئے موقع ملتے ہی انہوں نے نواز شریف کے نقش قدم پر چلنا نہیں، دوڑنا شروع کر دیا ہے۔

سچی بات ہے کہ نواز شریف ہوں، آصف زرداری یا عمران خان حکومت یا سیاست انہیں پاکستان ہی کے کسی صوبے یا مرکز میں کرنی ہے اور ان کو ملنے والا ووٹ انہی کا ہوتا ہے لہذا جواب دہ بھی وہی ہوں گے، پھر وہ کسی بھی ایسے اسمبلی ممبر کی عزت کیوں کریں گے جو جیتا ہی ان کی ذات کی وجہ سے ہو، آپ جانتے ہیں کہ جو الیکٹیبلز ان کے محتاج سرے ہیں ہی نہیں وہ ہمیشہ کھیر کھاتے ہیں۔

اب آتے ہیں کہ یہ رینگتی حکومت کب تک چلے گی، آپ کو ذرا یاد دلا دوں کہ پیپلز پارٹی نے 2008 سے 2013 تک کا عرصہ کس طرح گزرا تھا، رینگ رینگ کر وقت پورا کر ہی گئے تھے۔ یہ کر پائیں گے یا نہیں اس کا براہ راست تعلق ان لوگوں سے ہے جن کا شمار عوام میں نہیں ہوتا، ان کو یہ حکومت کس حد تک اور کب تک مطمئن رکھ پاتی ہے قطعیت کے ساتھ کچھ کہا تو نہیں جا سکتا مگر خیال یہ ہی ہے کہ تحریک کسی طرح کا پنگا لینے کے موڈ میں نہیں۔

ہواؤں میں آرمی چیف کی مدت ملازمت کے حوالے سے ایک ممکنہ قانون سازی کی تجویز کی خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ اس مدت کو تین سال سے بڑھا کر چار سال کر دیا جائے، ایسا ہونے کا مطلب یہ ہو گا کہ رواں سال کے نومبر کے بجائے بات اگلے نومبر تک چلی جائے گی۔ اس تجویز پر عمل در آمد کے چانس کتنے ہیں کتنے نہیں اس بحث میں جائے بغیر اتنا عرض کرتا ہوں کہ ایسی تجاویز ہواؤں میں بلا وجہ سرایت نہیں کرتیں۔

سب کے علم میں ہے کہ عثمان بزدار کی حیرت انگیز قابلیت در اصل کیا ہے۔ ایک ایس ایچ او سے دوستی پر فخر کرنے والے کو اگر صوبے کے وزیر اعلیٰ کا پروٹوکول مل جائے تو اس کے علاوہ زندگی میں اس کی کیا خواہش ہو سکتی ہے، وہ اسی پر خوش رہے گا، کبھی چیلنج نہیں بنے گا۔ تحریک میں اس کی نہ جڑیں ہیں نہ کوئی واقفیت لہذا گروپ بندی بھی نہیں کر پائے گا۔ یہ سب درست تو ہے مگر ایک بات خان صاحب نظر انداز کر گئے اور وہ یہ کہ ایسا شخص در اصل اس طاقت کا وفادار ہو گا جو اسے وزیر اعلیٰ بنا سکتی اور قائم رکھ سکتی ہے آج وہ طاقت عمران خان ہیں کل اگر وہ طاقت کہیں اور سے ملی تو؟

ایسے شخص کے دل میں اگر سچ مچ کا وزیر اعلیٰ بننے کی خواہش پیدا ہو گئی تو؟ اب وہ آگے چلے یانہ چلے، خواہش پوری ہو نہ ہو، مگر ایسا خواب دیکھنے پر پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی اور خواب دکھانے والے پرانے کھلاڑی ہیں۔ نواز شریف نے نوے کی دہائی میں تقریباً ان وجوہ کی بنا پر ہی پنجاب کا وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں کو بنوایا تھا، ان کی سادگی کی مثالیں شاید بزدار سے کہیں زیادہ ہوں کہ وہ تو کلب روڈ پر دفتری اوقات کے بعد وہیں کمرے میں بستر لگوا کر سو بھی جاتے تھے مگر بنیادی فرق یہ تھا کہ وائیں ایک پرانے سیاسی ورکر تھے لہذا وقت آنے پر انہوں نے منظور وٹو بننے یا وعدہ معاف گواہ بننے سے انکار کر دیا تھا اور تحریک عدم اعتماد کے بعد وہ رکشہ پکڑ کے گھر چلے گئے۔ اگر ایسا وقت عمران خان پر آ گیا تو کیا عثمان بزدار، خان صاحب کے ساتھ اسی طرح کھڑے ہوں گے، میرا خیال نہیں کہ ایسا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).