تبدیلی کے چالیس سال


سال کا آغاز ہے وقت انسان کو کسی نہ کسی طرح ماضی کے واقعات پر نظر دوڑانے کا مشورہ دیتا ہے۔ آج سے تقریباً چالیس سال پہلے دنیا میں تبدیلی کے ایسے واقعات رونما ہوئے جس نے براعظم ایشیاء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نہ صرف تبدیل کیا بلکہ اس تبدیلی کی انمٹ نقوش بھی چھوڑے۔

افغانستان کے انقلابِ ثور، ایران کے اسلامی انقلاب اور امریکہ کی سرد جنگ کی لڑیاں آپسمیں جڑی ہوئی ہیں۔ آئیے ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں۔

1978 میں امریکی صدر جمی کارٹر اپنے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر برزنسکی کے ہمراہ نئی دہلی پہنچے۔ مرارجی ڈیسائی اس وقت بھارت کے وزیراعظم جبکہ اٹل بہاری واجپائی خارجی امور کے وزیر تھے۔ امریکہ صدر کے اس دورے اور انقلابِ ثور کو سازشی منصوبہ تو نہیں کہا جاسکتا پر اس دورے کے چار ماہ کے اندر اندر انقلاب برپا ہونا خود ایک سوال ضرور ہے۔ اسی سال 28 اپریل کو کمیونسٹس نے افغانستان میں اقتدار سنبھالا تو دنیا حیران رہ گئی۔

کارٹر کے دورۂ دہلی کے ایک سال بعد شاہ آف ایران محمد رضا پہلوی کو آیت اللہ خمینی نے تخت بدر کیا۔ 4 نومبر 1979 کو ایرانی انقلاب کے دوران چند نوجوانوں نے امریکی سفارت خانے پر حملہ کیا۔ 444 دن تک یہ سفارت خانہ انہی کے قبضے میں رہا۔ 20 جنوری 1981 کو جب سفارتی عملے کو رہا کیا گیا تو امریکی صدر کی خوشی دیدنی تھی جب انہوں نے نائب صدر والٹر مونڈل کو جپھی ڈالی۔ اس کے بعد ایران کنٹرا سکینڈل بھی نمودار ہوا۔ اسی طرح کے کئی پہ در پہ واقعات رونما ہوئے جو کہ مغرب اور ایران کے درمیان تناؤ کا سبب بنے۔

ایران کے اسلامی انقلاب سے 6 برس قبل شاہ آف ایران کی بدنام زمانہ خفیہ ایجینسی ساواک نے سی آئی اے کی مدد سے افغانستان میں لیفٹ کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے سوچ بچار شروع کردی جس کے نتیجہ یہ نکلا کہ محمد داؤد نے 1973 میں بادشاہ محمد ظاہر شاہ کو تخت سے ہٹادیا اور مصاحبین کی حکومت کا خاتمہ کرکے صدارت کے منصب پر فائز ہوئے۔ محمد ظاہر شاہ کو ملک بدر کردیا گیا جو کہ کافی عرصہ روم میں رہے اور 9 / 11 کے بعد واپس افغانستان پہنچے۔

1965 کی قائم شدہ کمیونسٹ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان 73 تک دو دھڑوں میں بٹ چکی تھی۔ اسی سال خلق دھڑے کے نور محمد خان نے تاریخی پریس کانفرنس کی۔ صدر داؤد کی حکومت 78 ء تک قائم رہی۔ 17 اپریل 1978 کو پارٹی کے دوسرے دھڑے پرچم کے میر اکبر خان کو قتل کیا گیا تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ جس کے سبب فوج کے اسلم وطن جار اور عبدالقادر نے محل میں گھس کر صدر داؤد اور اس کی فیملی کے کئی دیگر افراد کو قتل کردیا۔

اسی طرح کمیونسٹس نے پہلی مرتبہ کابل میں حکومت قائم کی اور نور محمد خان ترکئی کو ملک کا صدر چنا گیا۔ افغانستان میں کمیونسٹس کا اقتدار میں آنا اور داؤدی حکومت کا خاتمہ انقلابِ ثور کہلاتا ہے۔ کمیونسٹس حکومت نے سوویت یونین کے لیے راہیں ہموار کیں اور یوں اس نے دسمبر 1979 میں افغانستان میں قدم جمائے۔

برزنسکی ایک مرتبہ پھر جنوبی ایشیاء آئے اور اس دفعہ پاکستان میں قیام پزیر ہوئے۔ سلفیوں کو افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ سوویت یونین کا افغانستان سے انخلاء دس برس بعد ممکن ہوا۔ سوویت یونین کے خلاف جیتنے والے مجاہدین نے پھر قدم کشمیر، قاہرہ میں جمائے۔

1979 سے 1989 افغانستان میں مجاہدین اور سوویت یونین آپسمیں لڑتے رہے، پر اس کے بعد افغانستان آج تک جل رہا ہے۔ 9 / 11 کے بعد نیٹو افغانستان میں موجود ہے۔ وہ افغان طالبان جو کہ امریکہ کے چہیتے تھے آج درد سر ہیں۔

ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد مہدی بازرگان کو ملک کا وزیراعظم بنا دیا گیا۔ وہ خمینی کے نظریات کے شدید مخالف تھے۔ امریکی سفارتخانے پر حملے کے سبب 9 ماہ بعد احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ پیرس سے آیت اللہ خمینی کو لانے والے ابوالحسن بنی صدر کو ایران کا پہلا صدر نامزد کیا گیا۔

جس طرح مجاہدین کو افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا گیا اسی طرح ایران کی حزب تودۂ پارٹی کو خمینی کے خلاف استعمال کیا گیا۔ خلق دھڑے کے مجاہدین بھی عراق جاکر خمینی کے خلاف صدام حسین کی زیرِ نگرانی استعمال ہونے لگے۔ اگر سی آئی اے نے ایک طرف کمیونسٹس کو ختم کرنے کا کارنامہ سر انجام دیا تو دوسری طرف آیت اللہ خمینی کو بھی مضبوط کرنے میں کردار ادا کیا۔

ایران اور افغانستان میں 40 سال قبل ہونے والی اس تبدیلی کے اثرات آئے دن بڑھ رہے ہیں۔ ایران ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ امریکہ کے لیے درد سرد بنتا جا رہا ہے۔ افغانستان میں اس کی وار آن ٹیرر کامیابی سے کوسوں دور ہے۔ طالبان اور امریکہ کے مابین مذاکرات کے لیے سرگرم زلمی خلیل زاد بھی ابھی تک کوئی اچھی خبر نہیں دے سکے۔

ہاں پاکستان اس سے متاثر ہوا اور ہو رہا ہے۔ کبھی عسکری و عوامی جان و مال کے ضیاع کی صورت میں تو کبھی امریکی صدر کے نئے سال کے استقبالیہ ٹویٹ کی صورت میں۔ اشرف غنی بھی سمجھتے ہیں کہ دہشت گرد پاکستان کی طرف سے آرہے ہیں اور بھارت بھی یہی راگ الاپ رہا ہے۔ امریکہ بھی سمجھتا ہے کہ پاکستان اسے بے وقوف بنا رہا ہے۔ خیر 40 سال کی اس تبدیلی نے خطے کو مکمل طور پر مختلف بنا کر رکھ دیا اور نتیجہ صفر ضرب صفر برابر صفر۔
ان چالیس سالوں کے ساتھ کئی داستانیں جڑیں ہیں جن کو اگر بیان کیا گیا تو بقول کفیل آزر ”بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).