سوا لاکھ یورو سالانہ ٹیکس دینے والا چپڑاسی


چپڑاسی ہونے کو ہمارے معاشرہ میں حقیر سمجھتے ہیں۔ لیکن آج مئی 1975 کی تیرہ تاریخ اور منگل کا دن ہے۔ منگل کا دن برِ صغیر کے باسیوں کے لئے خوشی کا دن ہوتا ہے میں ایک بُجھے ہوئے دل کے ساتھ لاہور سے سرگودھا جانے والی سڑک کے شیخوپورہ سے پہلے چیچو کی ملیاں سن شائین ملز کے سامنے بس سٹاپ کے پر کھڑا ہوں۔ گرمی کا موسم تو ہے لیکن باہر کی گرمی اندر کی گرمی سے کم اور قابل برداشت ہے۔ بس پر دُھول سے بچتے ہوئے سوار ہو جاتا ہوں۔ فوجی ٹریننگ نے خود حفاظتی کی حس بھی پیدا کر دی ہے اور ڈرائیور کے پیچھے تیسری چوتھی لائین میں جگہ ملنے کو ہمیشہ ترجیح دیتا ہوں۔ یہاں ایک خوش پوش نوجوان پہلے سے براجمان ہے۔

ہمراہی بوسکی کی نئی اوراچھی سلائی والی استری شدہ قمیض پہنے میری طرف دیکھ کر ہلکا سا مسکراتا ہے جس کے جواب میں کم از کم اتنا ہی مسکرانا مجھ پر لازم ہو جاتا ہے۔ میرے جوابی مسکرانے پر یہ نوجوان میرے ساتھ کچھ زیادہ ہی فری ہونے کے موڈ میں ہے اور مجھے سلام دعا کر کے احوال طلبی کرنے لگا ہے۔ میں نے مصنوعی خوشگواری سے مختصر جواب سے خلاصی چاہتا ہوں لیکن یہ ٹلتا ہی نہیں۔ مجھے اس کے ساتھ کوئی گھنٹہ بھر رفاقت کی مجبوری ہے۔ اس کے اندازِ گفتگو نے آہستہ آہستہ اس کی باتوں کو میری سماعت کے لئے گوارہ کردیا ہے جو بتاتا ہے۔

میں ایک دیہاتی آدمی ہوں۔ اور ضلع میانوالی کا رہنے والا ہوں۔ والدین نے بڑی مشکل سے مجھے میڑک تک تعلیم دلوائی ہے اور اب میرا فرض ہے کہ میں ان کے ساتھ باقی بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے معاون بنوں۔ اس ملک میں سفارش اور رشوت کے بغیر کوئی معقول کام کا ملنا محال ہے۔ میں نے یہی مناسب سمجھا ہے کہ پولیس میں بھرتی ہو جاتا ہوں اور پھر محنت کر کے ترقی کر لوں گا۔ سہالہ ایک دیہاتی کے لئے گھر سے بہت ہی دور ایک شہر ہے جہاں جا کر مجھے ٹریننگ کرنی پڑی۔

ہفتے دوسرے گھر جا کر والدین کی امنگوں میں اضافہ کرنے چلا جاتا رہا۔ ٹریننگ کا دور ختم ہوا تو یہ خوش کن خواب کہ اب گھر والوں کی خدمت کر سکوں گا چکنا چور ہو گیا۔ ضلع میانوالی۔ یا پنجاب نہیں۔ مجھے ڈیوٹی پر کراچی بھیج دیا گیا۔ اب ہفتہ تو کیا مہینوں گھر والوں سے ملاقات ممکن نہ تھی۔ کراچی جیسے شہر میں ایک دیہاتی کو ایڈجسٹ ہونے کے لئے وقت چاہیے۔ لیکن وہ کیا کہتے ہیں۔ ہر کہ بلا از آسمان اورد۔ وہ خانہ انوری ہی نہیں میری قسمت کے خانہ میں نازل ہوئی اور مجھے ساحلِ سمندر پر گشت کرنے لگا دیا گیا۔

جہاں ریت اور پانی اور ہوا کے عناصر باہرتھے۔ چوتھا عنصر میرے اندر سلگ رہا تھا۔ میں باقاعدگی سے اپنی ڈیوٹی کرتا رہا تاکہ کسی روز افسران بالا کی خوشنودی کا مورد ہو سکوں۔ ایک روز گشت پر مامور اپنے فرائض کی انجام دہی سے لطف اندوز ہو رہا تھا جو دیکھا کہ ایک یورپی جوڑا ہماری روایات کے برعکس کم لباسی میں پانی کو گدلا کر رہا ہے۔ اگرچہ پانی کے گدلا ہونے پر مجھے اعتراض نہیں تھا کیونکہ یہ پانی ویسے ہی پینے کے لئے نہیں ہے لیکن ان کی کم لباسی درست نہیں تھی۔

ایک باوردی پولیس مین کی حیثیت سے کسی خطا کار پر گرفت کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ میری آواز پر دونوں نے باہر آ کر ہیلو کہا اور میرے ترش لہجہ میں سوال پر کہ آپ کو پتہ نہیں کہ یہاں نہانا جرم ہے۔ جواباً انہوں نے لا علمی اور دِلی معذرت کا اظہار کیا۔ میں نے اس معمولی فروگذاشت کو مقدمہ بنانے کے بجائے انہیں آئندہ احتیاط کی تنبیہ کرتے ہوئے خدا حافظ کہا۔ اس چٹی چمڑی والے کا خیال تھا کہ پاکستانی پولیس مین کو معمولی رقم سے کافی خوشی فراہم کی جا سکتی ہے۔

اسی خیال کے تحت پچاس روپے میرے ہاتھ پر رکھنے کی کوشش کی جو میں نے پاکستانیت کے جذبہ کے تحت ناکام بنا دی۔ اس پر انہیں احساس شرمندگی پیدا ہوا۔ اور مجھ سے پھر ملنے کی خواہش میں اپنا وزٹ کارڈ تھما دیا۔ بات آئی گئی ہوگئی اور اگلا ہفتہ معمول کے مطابق گزر گیا۔ اب ایک دن کی چھٹی آگئی جسے گزارنا تھا۔ پولیس لائینز سے باہر جانے کے لئے کوئی دلچسپی والی بات نہ پاتے ہوئے چٹی چمڑی والے کے وزٹ کارڈ پر نگاہ پڑی اور پروگرام اسے ملنے کا بن گیا۔

اپنے استری شدہ کپڑوں کی ٹھاٹھ میں دیے گئے پتہ پر جانے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ منزل پر پہنچ کر دیکھا تو یہ ایک سوئس بنک کی بلڈنگ تھی۔ اس کی ریسیپشن پر مامور آدمی کو کارڈ دکھایا اور بتایا کہ میں اس شخص کو ملنے آیا ہوں۔ اس نے بغور مجھے اورکارڈ۔ اور پھر مجھے دیکھا۔ اور بے یقینی کی صورت میں انٹرکام سے اندر اطلاع کی کہ ایک پینڈو نوجوان ہے جو صاحب سے ملنے آیا ہے۔ اس کے صاحب کہنے سے مجھے ہلکی سی جھر جھری سی ہوئی کہ جس شخص کو یہ صاحب کہہ کہ کر پکار رہا ہے کوئی بڑا آدمی ہوگا۔

اور میرے پاس مشترکہ موضوع تو ہے نہیں پھر اس سے مل کر کیا بات کروں گا۔ تاہم مجھے اندر بھجوا دیا گیا۔ ایک دیہاتی کے لئے اتنی صاف اور خوبصورت بلڈنگ میں احساس کمتری پیدا کرنے کے لئے کافی مواد موجود تھا۔ میں نے آیت الکرسی پڑھ کر سینے پر پھونکی اور اپنے اندر اعتماد اور بلند حوصلگی کا اضافہ کرلیا۔ بنک مالک اپنے دفتر سے باہر دروازہ پر آ کر بڑے احترام سے مجھے اندر لے گیا۔ حال احوال دریافت کیے اور چائے بسکٹ سے تواضع کی۔

میری آمد کا شکریہ ادا کیا اور باہر تک مجھے چھوڑنے کے لئے آیا۔ میں کامل اطمینان سے ایک خوشگوار چھٹی سے محظوظ ہو رہا تھا کہ اس نے مجھے یہ کہہ کر کہ میں اب آپ کے ہاں آؤں گا تھوڑا سا پریشانی میں ڈال دیا۔ اور میری اگلی چھٹی کے روز وہ دونوں میاں بیوی اپنی لمبی گاڑی میں پولیس لائینز پہنچ گئے۔ میرے کمرے میں جہاں چار چارپائیاں جن کے سرہانے صندوق اور ذاتی سامان رکھا ہوا تھا۔ میرے ساتھی نے تعاون کرتے ہوئے کرسیاں سیٹ کر دیں اور لوہے کے مگوں میں چائے ان کے سامنے رکھ دی جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ نوش کیا۔

اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد جب انہیں خدا حافظ کہنے گاڑی تک گیا تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ تنخواہ کیا ہے۔ اسوقت ہماری تنخواہ سوا سو روپے تھی۔ اس پر اس نے پیش کش کی کہ میں اس کے پاس نوکری کرلوں تو مجھے تین سو تنخواہ دے گا۔ میں نے مجبوری ظاہر کی کہ میں سرکاری ملازم ہوں۔ اور استعفیٰ آسانی سے ممکن نہیں۔ اس نے کاغذی کارروائی اپنے ذمہ لیتے ہوئے میری رضامندی حاصل کر لی اور اگلے ماہ مَیں اس کے بنک میں سینئر کلرک تھا اور میرا کام اس کے بیرونی پروگراموں میں اس کے ساتھ ساتھ رہنا تھا۔ تین سال کی نوکری معقول تنخواہ کی وجہ سے میرے گھر والوں کو کافی آسودگی ملی۔ اب اس بنک کے مالک نے میری تقرری سوٹزرلینڈ میں کر دی ہے۔ تین سال کا ویزہ لگ چکا ہے پندرہ دن کی چھٹی کے بعد میں اب زیورچ روانہ ہو جاؤں گا۔

میرے اس باس نے اس عرصہ میں مجھے صرف ایک نصیحت کی ہے کہ

”اگر تمہیں سکول میں چپڑاسی بھی لگا دیا جائے تو گھنٹی اس سُر سے بجاؤ کہ لوگ عش عش کر اٹھیں۔ “

میری منزل آ گئی اور نوجوان کی رفاقت فرقت میں بدل گئی۔

میں نے اس چپڑاسی جیسا رویہ اپنانے کا دل میں عہد کر لیا ہے۔

اب مَیں 2019 میں ( الحمد للہ فیملی سمیت سوالاکھ یورو سالانہ ٹیکس دینے والا ) چپڑاسی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).