ایدھی صاحب اور ڈوبتے ابھرتے ستارے


ایدھی صاحب رخصت ہوگئے۔ ہمارے درمیان روشنی کا ایک نشان تھا، نہیں رہا۔ ایدھی صاحب نے نیکی کو پہچانا اور نیکی کو جی کے دوسروں کو سکھایا کہ اچھائی کیا ہوتی ہے۔ خوش نصیبی تو اس ماں کے حصے میں آئی جس نے کم عمر عبدالستار کو کیا سکھا دیا کہ آج اسی برس بعد بیٹا رخصت ہوا ہے تو ماں کا نام زندہ ہے۔ ایدھی صاحب کو اس ملک کے رہنے والے مجھ آپ جیسے سادھارن لوگوں نے بھی محبت دی اور ریاست نے بھی احترام کا حق ادا کر دیا۔ معاشرہ اچھائی کی عزت کرنا سیکھ لے تو اچھائی کی فی ایکڑ پیداوار بڑھ جاتی ہے۔ معاشرہ اچھے لوگوں سے کبھی خالی نہیں ہوتا۔ اچھائی کی صورتیں بدلتی رہتی ہیں۔ نام بدل جاتا ہے۔ بنجمین فرینکلن امریکہ کے بانیوں میں سے ایک تھا۔ امریکہ کی آزادی سے بہت پہلے اس نے ایک بالٹی، کلہاڑی اور ایک لمبی رسی کی مدد سے فائر بریگیڈ کی بنیاد رکھی تھی۔ کوئی تین صدی بعد ایدھی صاحب نے اپنا کام شروع کیا تو ڈسپنسری بنائی، ایمبیولنس کا نظام قائم کیا۔ نفرت اور تشدد میں جلتے شہر کراچی میں محبت اور خدمت کا پیغام دیا۔ ایدھی صاحب نے اپنی ذات میں ایک بامعنی زندگی گزاری۔ اس معنویت کو زندہ رکھنے کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ نیک آدمی معجزہ نہیں ہوتا، کچھ اصولوں کی پاسداری کرنے سے عظمت پاتا ہے۔ جن معاشروں نے ترقی کی ہے وہ معاشرے بھی کسی سیارے سے درآمد نہیں کئے گئے۔ کچھ اصول ضابطوں کی پاسداری کرنے سے معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کوئی پوچھے کہ ترقی کا پیمانہ کیا ہے؟ دو اشارے عرض کئے دیتا ہوں؛ دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے انسان جس معاشرے میں داخل ہونے کا خواب دیکھنے لگیں، جان لیجئے کہ اس معاشرے میں کچھ اچھا ضرور ہے۔ دوسرا اشارہ معاشرے کی توانائی کا یہ ہے کہ وہاں پیدا ہونے والی انسانوں کو یہ اعتماد ہو کہ جب وہ محنت کریں گے اور قانون کی پابندی کریں گے تو معاشرہ ان کی خوشیوں کی حفاظت کرے گا۔ وہ خواب دیکھیں گے اور معاشرہ خواب تک پہنچنے کا ادارہ جاتی بندوبست کرے گا۔ خوراک، لباس، علاج معالجہ، رہنے کے لئے سر پر چھت، اہلیت کے مطابق روزگار، بچپن کی کلکاری، جوانی کا قہقہہ اور بڑھاپے کی مسکراہٹ پر کوئی انگلی نہیں اٹھائے گا۔

پاکستان ہمارا ملک ہے، ہم پر اچھے برے بہت سے وقت آئے۔ ہم نے اپنے وطن کے امکان پر اعتماد کبھی نہیں کھویا، ہمیں اچھے انسانوں کی نعمت بھی ہمیشہ میسر رہی۔ فیض صاحب نے جیل میں ایک نظم لکھی تھی۔ زنداں کی ایک صبح…. تین سطریں پڑھ لیجئے؛

چاند کے ہاتھ سے تاروں کے کنول گر گر کر

ڈوبتے، تیرتے، مرجھاتے رہے، کھلتے رہے

رات اور صبح بہت دیر گلے ملتے رہے

شاعر کا کام لفظ کے معنی کو وسیع کرنا ہے۔ یہ جو فیض نے ڈوبنے اور ابھرنے کی بات کی کیا یہ انسانوں کے اس دنیا میں آنے اور جانے کا مضمون ہے؟ انسان موت کے نامعلوم میں اترتے جائیں اور نئے انسان سامنے آئیں۔ اجازت دیجئے کہ دو نسبتاَ کم عمر مگر قابل قدر صحافیوں کا ذکر کروں۔ بابر ستار تعلیم کے اعتبار سے ماہر قانون ہیں۔ لکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے، وطن کا مقدمہ پیش کر رہے ہیں۔ انتہا پسندی کے موضوع پر ایک کالم لکھا، ایک جملہ ایسا جامع لکھ دیا کہ طغرہ بنا کر درس گاہوں، دفتروں اور گھروں میں آویزاں کرنے کے لائق ہے۔ لکھتے ہیں “ریاست کا اصل مقصد کسی عقیدے کا پرچار نہیں بلکہ اپنے شہریوں کا تحفظ اور ایسی پالیسیاں وضع کرنا ہے جو ان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لئے معاون ہو۔” خورشید ندیم بھی ایک صحافی بھائی ہیں۔ کڑی کمان کے تیر ایسی استوار اردو لکھتے ہیں۔ طبیعت کا رجحان علمی ہے اور رنگ تحریر میں اس کی جھلک بھی ملتی ہے۔ اخبار کے جس صفحے پر خورشید ندیم کی تحریر چھپتی ہے، وہ روشن ہو جاتا ہے، خاک کا اتنا چمک جانا ذرا دشوار تھا۔ لکھتے ہیں “ایدھی معروف معنوں میں ایک مذہبی آدمی نہیں تھے مگر ان کی ذات اور کاموں سے مذہب کی روح نمایاں ہوتی ہے۔ ” کیا صحیح لکھا ہے۔ مگر بھائی ہم نے تو مذہب کی روح ہی کو تعصب کی تنگنائے میں قید نہیں کیا بلکہ ریاست کا نصب العین بھی مسخ کر ڈالا، سیاست کے پیمانے دھندلا دیے، علم پر مفاد کا پتھر رکھ دیا، شناخت کو تفرقے کی دیوار بنا دیا، آزادی کو جبر قرار دے دیا۔

چند عالی دماغ ایک مجلس میں رونق دے رہے تھے۔ پاکستان کے بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کی بدلتی صورتوں پر بات ہورہی تھی۔ ایک طالب علم نے سوال اٹھایا کہ صاحب ایک دروازے سے اٹھ کر دوسرے دروازے پر بیٹھ جائیں گے تو مسئلہ وہیں کا وہیں رہے گا۔ ایک آزاد اور خود مختار قوم کے لئے کسی کی دریوزہ گری مناسب نہیں ہے۔ ہم اپنے شہریوں کی علمی فکری اور تمدنی توانائی کا کنواں کیوں نہیں کھودتے کہ ہماری فصلیں ہمارے پانی سے سیراب ہوں؟ ہمارے بچے علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ علم کی پیداوار میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ہماری مصنوعات منڈی میں اپنے معیار پر مقابلہ کریں۔ دو سو ستر ارب ڈالر کے چھوٹے سے کیک پر بیس کروڑ کی چھینا جھپٹی میں وقت ضائع کرنا ہے یا اس کیک کا حجم بڑھایا جائے۔ معیشت کے نیچے صلاحیت کا پہیہ لگایا جائے۔ صلاحیت کی کمی نہیں، ہم نے صلاحیت کی گاڑی کو تعصب، امتیاز، استحصال اور جہالت کے پتھروں پر رکھ چھوڑا ہے۔ ملک کی گاڑی کو مساوات، انصاف، علم اور ضابطے کے پہیوں پر نصب کر کے پٹری پر ڈال دینا چاہئے۔ یہ درست ہے کہ دنیا میں ناخواندہ لوگوں کی دوسری بڑی تعداد ہمارے ملک میں ہے۔ اور یہ ناخواندہ آبادی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے کیوںکہ ناخواندہ ہاتھ کی محنت پیداوار میں تعلیم یافتہ ذہن کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ لیکن توجہ فرمائیے کہ ایدھی صاحب کی رسمی تعلیم کچھ زیادہ نہیں تھی۔ تعلیم ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اس ملک کو ناخواندہ لوگوں سے کہیں زیادہ پڑھے لِکھوں نے نقصان پہنچایا ہے۔

اپنے شہریوں کی بنیادی اچھائی، دیانت اور صلاحیت سے انکار نہیں لیکن معاف کیجئے گا اخبار کا ایڈیٹر قلم اٹھاتا ہے اور آمریت کا مطالبہ کرتا ہے، معیشت دان آئین ہی کو بے وقعت دستاویز قرار دے دیتا ہے، سیاسی جماعت کا رہنما سیاست ہی کو مطعون کرتا ہے، ماہر تعلیم علم کے بنیادی مفروضوں کو جھٹلاتا ہے، سائنس دان علت اور معلول کے رشتے سے انکار کرتا ہے۔ مذہب کا علم بردار ریاست کی سرحدوں ہی سے انکار کر دیتا ہے۔ صاحب تقویٰ رکن پارلیمنٹ ہو یا درجہ اول کا قانون دان، پبلک میں ناشائستہ زبان کے استعمال کو برا نہیں جانتے۔ بہترین کپڑے پہنے دو لاکھ روپے کی موٹر سائیکل پر بیٹھا صحت مند نوجوان سڑک پر ایک پہیہ ہوا میں اٹھا دیتا ہے۔ یہ کہنا مناسب نہیں کہ یہ سب لوگ تعلیم اور تہذیب سے عاری ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم تعلیم اور منصب کو اپنی ذات کے تابع سمجھتے ہیں اور پھر اسی مفروضے کو پھیلا کر ریاست پر منطبق کر دیتے ہیں۔ غلام قوموں کی آزادی کی جدو جہد اس اصول کی بنیاد پر کی گئی کہ انسان مذہب، نسل، رنگ، صنف اور ذات پات کے امتیازات سے قطع نظر اپنے اپنے ملکوں پر حکمرانی کا حق رکھتے ہیں۔ آزاد قوموں کے اس عالمی نظام کے اصول ضابطوں سے منہ موڑ کر قوم کو ترقی کی راہ پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ استاد محترم فرمایا کرتے ہیں کہ دنیا کو بدلنے کی یوٹوپیائی خواہش کی بجائے حالات کو سمجھ کر خود میں تبدیلی لانا ترقی کی ضمانت دیتا ہے۔ ایدھی صاحب ایک روشن نشان تھے۔ یہ ستارہ اوجھل ہوا ہے تو روشنی کی ان گنت کرنوں کو آزاد کرنا چاہئے۔ آنکھ میں جستجو اور دل میں امید کو جگہ دینی چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments