سینکڑوں ماؤں کا بیٹا عالم زیب محسود: سلاخوں کے پیچھے


عالم زیب محسود کی فیسبک ٹائم لائن پر نظر دوڑائی جائے تو 2017 تک ان کی تحریروں، تصویروں اور ویڈیوز میں تحریک انصاف سے محبت اور نواز شریف سے نفرت جھلکتی ہے۔ ظاہر ہے جب وہ عمران خان پر دل و جان سے فدا تھے تو سیاسی بیانیہ بھی وہی ہوگا جس سے خان صاحب دھرنوں، جلسوں اور میڈیا پر بیان کرتے رہے۔ دیگر انصافیوں کی طرح عالم زیب بھی شاید نواز شریف کو جیل میں دیکھنا چاہ رہے تھے۔ ان کا یہ خواب پورا بھی ہوا۔ لیکن شاید انہوں نے سوچا نہیں تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت ہی میں انہیں بھی جیل جانا ہوگا۔

اب عمران خان صاحب کے شب و روز وزیراعظم ہاؤس اور نواز شریف اور عالم زیب کے جیل میں گز رہے ہیں۔ شاید وہ جیل نہ جاتے اگر وہ عمران خانی سے منظور خانی تک کا فکری سفر طے نہ کرتے۔ عالم زیب پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی گنجلک کہانی اس وقت کھلنے لگی جب انہوں نے 2014 میں اپنے آبائی وطن جنوبی وزیرستان کا سفر کیا اور تباہ شدہ وزیرستان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ انہوں نے اس کی ویڈیو بنائی اور فیسبک پر ڈال دی۔ یہاں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے متعلق بنایا گیا سرکاری بیانیہ انہیں مشکوک نظر آنے لگا۔

انہوں نے اس سے متعلق اپنے طور پر تحقیقات شروع کردی، ادھر ادھر سے ثبوت اکٹھے کرنے شروع کردیے، بے گھر ہونے والے لوگوں کی کہانیاں سنیں، لاپتہ افراد کے اہل خانہ سے ملاقاتیں کیں اور ان کی روداد پر مبنی ویڈیوز فیسبک پر ڈالنے لگے۔ عالم زیب نے جب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ہر پہلو کو سمجھا تو انہوں نے ایک ویڈیو میں اس کے لئے چوہے اور بلی کے کھیل کا محاورہ استعمال کیا۔ اس دوران یعنی جنوری 2018 میں پشتون تحفظ موومنٹ کا ظہور ہوا۔

عالم زیب محسود نے تحریک انصاف کے جھنڈے کے رنگ کا مفلر ہٹایا اور سر پر منظور پشتین کی ٹوپی رکھ دی۔ وہ پشتون تحفظ موومنٹ کے روح روان بن گئے مگر ان کی روح لاپتہ افراد کے المیوں میں اٹک گئی تھی۔ انہوں نے لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا کھوج لگانے اور ان کا دکھ منظر عام پر لانے کا بیڑا اٹھایا۔ وہ گاؤں گاؤں جاتے، لاپتہ افراد کے خوفزدہ رشتہ داروں کو بولنے پر آمادہ کرتے اور پھر ان کی درد بھری کہانیاں فیسبک پر لائیو دکھاتے۔

اس دوران وہ حکام سے ملاقاتیں بھی کرتے، رہے، کہیں پر منت سماجت کی تو کہیں پر دلیل اور کہیں پر بے گناہی کے ثبوت پیش کرتے۔ لاپتہ افراد کا گھر ماتم کدہ ہوتا۔ ایسی دردناک کہانیاں جس سے سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے۔ نا امید ماؤں کو عالم زیب میں امید کی کرن نظر آئی۔ عالم زیب نے ایسی بے شمار ماؤں سے وعدہ کر رکھا ہے کہ جب تک آپ کے بچے گھر واپس نہیں لوٹتے تب تک میں آپ کا بیٹا رہوں گا۔ لیکن اب سینکڑوں ماؤں کا یہ بیٹا بھی سلاخوں کے پیچھے بند ہوچکا ہے۔

( عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور مشال ریڈیو سے منسلک ہیں۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالحئی کاکڑ

عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور مشال ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہیں

abdul-hai-kakar has 42 posts and counting.See all posts by abdul-hai-kakar