گل بدین حکمت یار: ”کابل کے قصاب“ سے صدارتی امیدوار تک


افغانستان ایک بار پھر تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف ملک میں صدارتی انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں تو دوسری طرف افغان حکومت کا دست و بازو، امریکا اُن طالبان سے مذاکرات میں مصروف ہے جن کو آج سے اٹھارہ برس قبل خود کابل سے نکال باہر کیا تھا۔ کیا افغانستان میں صدارتی انتخابات ہو سکیں گے؟ اور کابل پر حکومت کس کی ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن فی الحال اٹھارہ بندوں نے افغانستان کے اگلے صدر بننے کے لیے خود کو پیش کر دیا ہے۔

صدارتی امیدواروں میں اکثر وہی ہیں جو گزشتہ چالیس برس سے خانہ جنگی کے مرکزی کردار یا کسی مرکزی کردار کے دست راست کے طور پر طویل خانہ جنگی میں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ سب سے دلچسپ کردار گلبدین حکمتیار کا ہے جو صدارتی امیدواروں میں سب سے پرانے کھلاڑی بھی ہیں اور ستر کی دہائی سے خانہ جنگی کا حصہ ہیں۔

گلبدین حکمت یار کو پہلی بار شہرت اس وقت ملی جب ان پر کابل یونیورسٹی میں طالبات پر تیزاب پھینکنے کے الزامات لگے۔ بعد میں اس کو سوویت پروپیگنڈا قرار دیا گیا لیکن اس واقعے کے بعد کابل میں گلبدین حکمتیار ایک جانی پہچانی شخصیت کے طور پر ابھرے۔ Roy Gutman کی کتاب ”How We Missed the Story“ کے مطابق گلبدین حکمت یار کی انتہا پسند ذہنیت کے باعث کابل یونیورسٹی کے ایک اور طالب علم رہنما احمد شاہ مسعود کے ساتھ اکثر چپقلش رہتی تھی۔ ایک بار گلبدین حکمت یار نے احمد شاہ مسعود کو قتل کرنے کی کوشش بھی کی تاہم وہ ناکام رہے۔

1979 میں سویت یونین کی افغانستان آمد کے بعد مجاہدین کے نام سے جو فورس تشکیل پائی اس میں حکمت یار کو ملک گیر اور بعد میں عالمی شہر ت حاصل ہوئی۔ پختون پس منظر کے باعث تمام مجاہدین کمانڈروں میں گلبدین حکمت یار نہ صرف پاکستان کے منظور نظر رہے بلکہ امریکا سے ملنے والی امداد کا بھی ایک بڑا حصہ ان کو منتقل ہوتا رہا۔

دس سال کی خونریز لڑائی کے بعد سویت یونین کی افواج افغانستان سے چلی گئی تو خانہ جنگی کا دوسرا دور شروع ہوا۔ پہلے تو مجاہدین کو ڈاکٹر نجیب کی حکومت گرانے میں مزید چار برس لگ گئے لیکن جب نجیب اللہ نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تو ہر مجاہد کمانڈر کابل پر حکمرانی کا خواب دیکھنے لگا۔

17 اپریل 1992 کی رات گلبدین حکمت یار کابل کے جنوب میں خیمہ زن تھے اور علی الصبح وہ دارالحکومت کابل پر دھاوا بولنے والے تھے۔ فجر کے وقت ان کو معلوم ہوا کہ ان کی پیش قدمی سے پہلے ہی شمال کی طرف سے احمد شاہ مسعود نے کمیونسٹ صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت گرا کر کابل پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ جان کر گلبدین حکمتیار خوش ہوجانا چاہیے تھا لیکن جس شخص کو وہ 22 برس کی عمر میں قتل کرنے کی کوشش کی تھی اس کو افغانستان کی جنگ آزادی کا ہیرو بنتے ہوئے کیسے دیکھ سکتے تھے۔

احمد شاہ مسعود کی جانب سے بار بار کابل تشریف لانے کی دعوت ملنے کے باوجودگلبدین حکمت یار نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا شہر پر بمباری شروع کردی۔ کہتے ہیں کہ سویت یونین کے دس سالہ دور میں کابل شہر پر اتنے گولے نہیں برسائے گئے تھے جتنے ایک ہفتے میں گلبدین حکمت یار اور دیگر مجاہدین کمانڈروں کی لڑائی میں برسائے گئے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اپریل 1992 کے آخری دو ہفتوں میں ڈھائی ہزار عام شہری مجاہدین کمانڈروں کی لڑائی میں لقمہ اجل بن گئے جبکہ کابل کے ہسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے تھے۔ گلبدین حکمت یار نے برسوں تک ایک مجاہد کمانڈر کے طور پر عزت کمائی لیکن اقتدار کی جنگ میں چند ہفتوں کے اندر ایسی سفاکی دکھائی کہ انہیں ”کابل کے قصاب“ کا خطاب دیا گیا۔

اپریل 1992 سے لے کر 1996 تک کابل پر قبضے کے لیے مجاہدین کمانڈروں کے درمیان لڑائی جاری رہی۔ اس دوران پاکستان نے دو بار صلح کروانے کی کوشش کی۔ گلبدین حکمت یار کو افغانستان کے وزیر اعظم اور احمد شاہ مسعود کو وزیر دفاع کا عہدہ دیا گیا لیکن گلبدین کی بلا شرکت غیر کابل پر حکومت کرنے کی خواہش نے انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیا اور وہ مسلسل شہر کے ان حصوں پر گولہ باری کرتے رہے جہاں دیگر مجاہدین کمانڈروں کی عمل داری تھی۔ گھوسٹ وارز کے مصنف اسٹیو کول کے مطابق اسامہ بن لادن نے بھی متعدد بار گلبدین حکمتیار کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ کہتے ہیں کہ 1996 تک کابل میں شہر میں ایک بھی عمارت گولہ باری سے محفوظ نہیں رہی تھی۔

دو سال کی مسلسل لڑائی کے بعد 1994 میں قندہار سے طالبان کے نام سے ایک نئی طاقت نے جنم لیا اور صرف دو برس بعد جب طالبان نے جنوبی افغانستان میں قدم جمانے کے بعد کابل کی جانب پیش قدمی شروع کی تو ان کا راستہ روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ تمام مجاہدین کمانڈر آپس کی لڑائیوں میں اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ طالبان کے تازہ دم دستے کا مقابلہ کرنے کی ہمت کسی نے نہیں کی۔ احمد شاہ مسعود واپس پنجشیر کے پہاڑوں میں جا بسے جبکہ گلبدین حکمت یار روپوش ہوگئے۔

2001 میں امریکا نے افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت گرا دی اور اقتدار شمالی اتحاد کے حوالے کر دیا جو پانچ برس سے طالبان سے برسرپیکار تھے۔ امریکا نے اسامہ بن لادن، ملا عمر اور دیگر طالبان رہنماؤں کے ساتھ ساتھ گلبدین حکمت یار کو بھی عالمی دہشت گرد قرار دے دیا۔ 2001 ء سے 2016 تک گلبدین حکمت یار کہاں رہے؟ معلوم نہیں لیکن 2016 میں افغان حکومت سے کامیاب امن مذاکرات کے بعد وہ منظر عام پر آ گئے۔ 22 ستمبر 2016 کو افغان حکومت نے گلبدین حکمت یار کے تمام سابقہ گناہ معاف کردیے 3 فروری 2017 کو امریکا اور اقوام متحدہ نے ان پر لگی پابندیاں ہٹا دی اور 4 مئی 2017 ان کی 20 سالہ جلا وطنی ختم ہوئی اور وہ حزب اسلامی کے پرچموں اور بندوقوں کے سائے میں اپنے ہزاروں جنگجوؤں کے ہمراہ طمطراق کے ساتھ کابل میں داخل ہوئے اور اشرف غنی سے ملاقات کرکے اپنے تمام سابقہ گناہ معاف کروا لیے۔

گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی اب بھی افغانستان میں ایک مضبوط جماعت مانی جاتی ہے لیکن صدارتی انتخابات انہوں نے آزاد لڑنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے پیچھے کوئی سیاسی منصوبہ بندی ہو سکتی ہے۔

دیکھا جائے تو گلبدین حکمت یار کے مطالبات وہی ہیں جو طالبان کے ہیں۔ اگر امریکا اور طالبان کے مذاکرات کامیاب ہوجاتے ہیں اور طالبان موجودہ نظام کے تحت ہی افغانستان کی سیاست کا حصہ بننے پر آمادہ ہوتے ہیں تو گلبدین حکمتیار طالبان کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ایسا ہونے کی صورت میں گلبدین حکمیتار کو افغانستان کے صدر بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ”کابل کا قصاب“ اور ”عالمی دہشت گرد“ کا خطاب پانے والے گلبدین حکمتیار اسلامی جمہوریہ افغانستان کے اگلے صدر بن سکیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).