تعلیم و تربیت اولاد


اسی طرح آج کے دور میں بچوں کے نامناسب اور غیرمہذب رویہ کی ذمہ داری وراثت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ وراثت کا یہ مفھوم صحیح اور قابل قبول نہیں ہے۔ کیونکہ ”ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے“ یعنی فطرت اسلام  پر پیدا ہوتا ہے اور پیدائشی طور پر مزاج اسلام سے ہم آہنگ ہوتا ہے کی حدیث کے خلاف ہے، مثلاً بچہ توہمیشہ سچ بولتا ہے یہاں تک کہ اس کا اردگرد کا آلودہ ماحول اسے جھوٹ بولنا سکھا دیتا ہے۔

جب بھی سچ بولتے بچوں پہ نظر جاتی ہے

یاد آ جاتا ہے بے ساختہ بچپن اپنا

اگر والدین بچوں کو اچھے کردار کے حامل افراد کی صورت و شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں گھر کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لینی ہوگی اور اس کے لئے خود بھی ایسی کتب پڑھیں اوربچوں کو بھی پڑھائیں جن میں عظیم لوگوں کی تربیت کرنے والے والدین کے تذکرے موجود ہوں اس سے بچوں کوترغیب ملے گی۔ بچے کا اپنے ذہن میں سہ ماہی ششماہی مقاصد کا تعین کریں۔ اور اس کے بعد جانچ پڑتال کریں آپ اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ بچوں کو اچھے کردار ادا کرنے کی ترغیب و تحریص دلائی جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ دامن پر لگے داغ تو دھل سکتے ہیں لیکن کردار اگر داغ دار ہوگیا تو اس کی مثال ان پھولوں کی ہوگی جن کی خوشبو جاچکی ہو اور خوشبودوبارہ لوٹ کر پھولوں میں کبھی نہیں آتی۔

یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے جوعموماً نظر انداز کردی جاتی ہے کہ انسان جسم و روح کا مرکب ہے۔ اس لئے اس کی بنیادی ضرورتیں بھی جسمانی و روحانی ہیں۔ اس کے لئے جسمانی ضروریات یعنی مادی وسائل کے ساتھ روحانی وسائل یعنی مذہب کی ضرورت ہے۔ جودائمی سکون و راحت کاسبب اوراخروی نجات کا باعث ہے۔ لیکن من حیث المجموع اس روح کے تقاضوں، ابدی سکون و راحت اورآخرت کی آگ بچنے کی فکرنہیں کی جاتی۔ جس کی اللہ رب العزت نے قرآن مجید اور فرقان حمید میں تاکید کی ہے۔

ترجمہ:اے ایمان والوں اپنی جان اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ (التحریم: 6 )

برسبیل تذکرہ یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ جس طرح اسلام میں عبادت صرف چند رسمی اعمال مشینی انداز سے اداکرنے کا نام نہیں بلکہ اللہ رب العزت اور حضور پرنور ﷺ کی مکمل اطاعت وفرمانبرداری کا نام ہے اور اپنی پوری زندگی کو اسلامی ادب و آداب کے سانچے میں ڈھالنے کا نام ہے۔ یعنی کھانے، پینے، سونے، جاگنے، کھیلنے کودنے اور سیر وتفریح کرنے جیسے مباح کام بھی باعث اجرو ثواب اور عبادت بن جائیں گے اگر ان کی ادائیگی میں اسلامی آداب کو پیش نظر رکھا جائے اور کرنے کی یہ نیت ہو کہ تازہ دم ہو کر، مزید طاقت حاصل کر کے رب کی عبادت و اطاعت کروں گا۔

یہاں اس نکتہ سے غافل نہ رہاجائے کہ اگر آخرت کی تیاری کی جائے گی اورحضور پرنور ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی کوشش کی جائے گی تو آخرت کی کامیابی کے ساتھ ساتھ دنیامیں بھی کامیابی وکامرانی اورسرفرازی قدم چومے گی۔ لیکن اس کونظرانداز کرنے کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ بہت کم والدین ہی اولاد کی صحیح تعلیم وتربیت کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اکثر ناکام و نامراد رہتے ہیں۔ پھر جب اولاد بڑی ہوجاتی ہے توان کے حسین خواب، خوبصورت تصورات وتخیلات بکھر جاتے ہیں۔

وہ اپنے بچوں سے شاکی، نالاں اوربیزارہوجاتے ہیں۔ کیونکہ والدین یہ توقع کرتے ہیں کہ محبت، خلوص، خدمت اورنگہداشت کے صلے میں بچے بھی تازندگی خدمت اور محبت کامظاہرہ کریں گے۔ چونکہ بچے عموماً (صحیح تربیت نہ کرنے کی وجہ سے ) اس توقع پر پورا نہیں اترتے اس لئے لازمی طورپر والدین کو شدید مایوسی کا سامناکرناپڑتا ہے۔ اکثر ایسے ماں باپ کو بڑھاپے میں پچھتاتے اور اولاد نافرمانیوں اور سختیوں کے تذکرے اور ان کی شکایات کے انبار لگاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

اور وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ تومکافات عمل ہے کہ جب بچوں کی مہار ان کے ہاتھوں میں تھی اس وقت شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دیا تھا اورانہیں کوئی لگام نہ دی تھی۔ اگر اس وقت اپنے فرائض تربیت صحیح طور پر اداکیے ہوتے تو آج اولاد بھی ان کے حقوق اداکرنے میں کوتاہی نہ برتتی۔ اگرآج ہم نے اولاد کی صحیح تربیت نہ کی توعین ممکن ہے کہ کل (بحیثیت) ماں باپ ہمارامستقبل بھی اولڈہوم سے وابستہ ہوجائے کیونکہ کانٹے اگاکر پھولوں کی توقع رکھنا یا آگ لگا کر ساون اور برسات کی توقع رکھنا پاگل پن اور دیوانگی کے سوا کچھ نہیں۔

شیکسپیئرکا ایک قول ہے : ”نافرمان بیٹے کا وجود سانپ سے زیادہ مہلک ہے“۔ حقیقتاً یہ امرواقعہ ہے کہ بہ نسبت اس سانپ (دشمن) کے جو انسان کی نظر کے سامنے ہو۔ آستین کا سانپ زیادہ خطرناک، مہلک اور تباہ کن ہوتا ہے۔

اولاد کے اس رویئے کی بنیادی وجہ تعلیم و تربیت کا فقدان ہے۔ اگرآج اولاد کی صحیح تربیت ہوگئی تو کل والدین کی زبان پر شکوہ ہوگا نہ شکایت، ورنہ اس وقت پشیمانی اورندامت کا سامنا کرناپڑے گا۔ اور اس وقت پشیمانی اورندامت سے کوئی فائدہ بھی نہ ہوگا اور یہ ندامت وتوبہ کوئی چارہ گر نہ ہوگی۔

حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے : ”باپ اپنی اولاد کوجوکچھ دیتا ہے اس میں سے سب سے بہتر عطیہ اس کی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔ “۔ ایک اور روایت میں آپ نے فرمایا: ”ایک صاع خیرات کرنے سے بچوں کی تربیت کرنا زیادہ بہتر ہے“۔

بچہ جو کچھ بنتا ہے اس میں وراثت سے زیادہ اس کے ماحول اور ماں باپ کی تعلیم و تربیت کاعمل دخل ہوتاہے۔ یہاں لفظ تعلیم سے مراد مختلف قسم کے علوم کا حصول ہے اورتربیت سے مراد تزکیہ اخلاق و ادب وروش و فعل ہے۔ لیکن یہ ذہن میں رہے کہ اسلامی انداز سے تعلیم و تربیت کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ تمام مسلمان اپنے بچوں کوحافظ، عالم اورمفتی ہی بنائیں۔ بلکہ اچھی تربیت کریں اور خلوص دل سے انہیں اچھا انسان اورمسلمان بننے میں مدد کریں۔

اور انہیں ان کی دلچسپیوں، صلاحیتوں اور انفرادی اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی شعبہ میں جانے دیں تاکہ وہ اس ملک و قوم کے کارآمد شہری بنیں۔ بچے کو اسلام کی بنیادی اور لازمی تعلیمات کے ساتھ میڈیکل، انجینئر نگ الغرض کوئی بھی تعلیم دیں، ہنرسکھائیں۔ بچے کو ذہنی، جسمانی صلاحیتوں اور اس کی خواہشات ودلچسپی کے مطابق پروان چڑھنے دینا چاہیے اور والدین پیشے اور ہنر کے انتخاب میں بچوں پر اپنی مرضی مسلط نہ کریں۔

ایسا کرنا محبت کا ثبوت نہیں بلکہ اس کی زندگی خراب کرنے کا باعث ہوگا۔ ہاں ان تمام کے ساتھ اگر اس کی شخصیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پروان چڑھے گی تویہ تمام سیکھنے سکھانے کاعمل باعث اجرو ثواب ہوگا۔ مسلمانوں کو ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر پیشوں کے ہنر مند افراد بھی چاہئیں۔ تما م معاشرہ صرف عالم اور مفتی بن کر زندگی نہیں گزارسکتا۔

والدین کو چاہیے کہ وہ خودمختلف امورخیر سرانجام دینے کی مسنون اورقرآنی دعائیں یاد کریں۔ ان دعاؤں کو اپنی زندگی کا جزو لاینفک بنائیں۔ دعا عاجزی، تضرع اورحضور قلب خشوع خضوع انکساری سے مانگیں۔ اپنے بچوں کوبھی یہ دعائیں ضروریادکرائیں۔ دعا کرنے کی ترغیب دلائیں۔ دعاؤں کواپنی اوربچوں کی زندگی کا معمول بنائیں۔ کیونکہ الدعا سلاح المؤمن۔ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ گھر میں دینی ماحول قائم کریں۔ قرآن کریم کی تلاوت اور دیگر عبادات کی پیروی کریں۔

اللہ کی وحدانیت، عظمت اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت سے ان کے قلوب کو منور کریں۔ بچوں کے ہاتھ سے صدقہ وخیرات تقسیم کرائیں۔ اس عمل سے بچوں کے اندر مال کی حرص وہوس کم ہوگی۔ نادار اور غریبوں کی ہمددری کا دل میں احساس پیدا ہوگا۔ اور صدقہ دینا ویسے بھی بلاؤں اور مصیبتوں کو ٹالتاہے۔ اگروالدین دوران تربیت ان امور کا خیال رکھیں تو یہی اولاد والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈ ک، پھولوں کا گلدستہ، پھلوں کی مٹھاس، قوی اور طاقتور بازو بن جائے گی۔ دنیاوی عزت و احترام اوراخروی نجات کا ذریعہ بنے گی۔

اس دنیا میں ایک نسل (جنریشن) اپنے معاملات و معمولات دوسری نسل ( اپنے جانشینوں ) کے سپر د کرکے یہاں سے رخصت ہوجاتی ہے۔ اب اگر وہ دینی ماحول، امن و سلامتی و خوشحالی کے ساتھ زندگی بسر کریں گے تو ان کے پیشرواور خلف بھی اس دنیا میں مدح و ستائش اور آخرت میں اجرو ثواب کے حقدار ٹھہریں گے بصورت دیگر ان کی صحیح تعلیم و تربیت نہ ہوئی اور ان کے جانے کے بعد اگر وہ اس دنیا میں تباہی وبربادی لائیں، اس دنیا کو بے آب وگیا صحرا میں تبدیل کریں اور روشنیوں کو اندھیروں میں بدل دیں توا ن کے پیشرو اورسابقہ نسل بھی اس کی ذمہ داراورشریک جرم ہوگی۔ اس لئے زیادہ موزوں، مناسب اوربہتریہی ہے کہ کل اندھیرے کا شکوہ کرنے کی بجائے آج یہاں اپنے حصے کا ایک ایک چراغ (بصورت حسنِ تربیت اولاد) جلادیا جائے۔ اس طرح اگر ہر فرد اپنا چراغ جلا لے گا تو یہ دنیا مثل ماہتاب روشن، منور، حسین اورخوشنما ہو جائے گی۔

کیونکہ بچے نہ صرف والدین کی زندگی کا چراغ ہیں بلکہ مستقبل کے معمارِ ملت وقوم بھی ہیں۔ اگر ایک طرف والدین کی زندگی میں ستاروں کی تابناکی، چاند کا حسن، چراغوں کی روشنی، پھولوں کی خوشبو، پھلوں کی مٹھاس، پیار کی چاشنی، دنیا کی رنگینی، چہرے کی شادابی، اورشہدکی حلاوت اورمٹھاس ان ہی کے دم سے ہے تو دوسری طرف پوری قوم کے مستقبل کا سوال اور ان کی بقا ان ہی معماروں کے ہاتھ میں ہے۔ یقیناً کوئی بھی زیرک، دانشمند اورفہم وفراست کا حامل شخص اپنی یا اپنی قوم کی باگ ڈور اناڑی، کمزور، ناتواں، فہم وفراست سے عاری، جلدباز، مشتعل جہلاکے ہاتھ میں دینا پسند نہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2