سندھ کے سمندر سے نکلنے والے گیس اور تیل کے ذخائر پر کس کا کنٹرول ہوگا؟


وفاقی حکومت نے گزشتہ سال چپکے سے دو عالمی کمپنیوں ایکسن موبل اور ای این آئی کو سندھ کے سمندر مین تیل اور گیس کی ذخائر کی تلاش کے ٹھیکے دیدیے، ایک کمپنی امریکی اور دوسری اٹلی کی ہے، دونوں کمپنیاں تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش میں مہارت رکھتی ہیں، چونکہ تیل اور گیس دنیا بھر کی بہت بڑی معیشت ہے اور ایکسن موبل اور ای این آئی مانی ہوئی کمپنیاں ہیں، ان کی اپنی ریسرچ ہے، یہ کمپنیاں تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش میں مہارت رکھتی ہیں، اس بات کا حتی الامکان ہے کہ ایک ڈیڑھ سال کے اندر بہت بڑی خوشخبری ملنے والی ہے، سندھ کے سمندر میں ملنے والے امکانی ذخائر کو دنیا کے بہت بڑے ذخائر کہا جارہا ہے، اس غیر معمولی کام میں ان لوگوں کو معلوم ہے نہیں جن کے سمندر میں ایسے ذخائر موجود ہیں، اور ان کی تلاش شروع ہوچکی ہے۔

دنیا بھر میں جن ممالک کے پاس انرجی (تیل اور گیس) وافر مقدار میں موجود ہے وہ ممالک ترقی یافتہ کہلاتے ہیں، کیونکہ ان ممالک کی صنعتوں، بجلی اور گاڑیوں کے لئے فیول سستا ملتا ہے، جس سے ترقی کی رفتار تیز ہوجاتی ہے، تیل اور گیس کی ایکسپورٹ سے بہت بڑا سرمایہ ملک میں آتا ہے، قطر، کویت، سعودی عرب، ایران روس اور اب امریکہ اس دولت سے مالا مال ہیں، اس لئے سندھ کے سمندر سے ملنے والے تیل اور گیس کے ذخائر اگر کویت اور قطر سے زائد ہیں، جس کا امکان بہت زیادہ ہے تو یہ خطہ بھی ترقی یافتہ ہوسکتا ہے۔

پر سندھ کے سمندر سے نکلنے والے تیل اور گیس کے ذخائر پر کس کا قانونی حق ہے یہ دیکھنا پڑے گا، اس وقت بہ ملک میں نکلنے والے گیس اور تیل کے ذخائر کا مجموعی طور پر بلترتیب ستر اور 56 فیصد سندھ سے نکلتا ہے، پر آئین کے مطابق بھی سندھ کو وہ فائدہ حاصل نہیں ہوا، وہ شئر نہیں مل سکا جو اسے ملنا چاہیے تھا، سندھ سے ملنے والے قدرتی ذخائر پر وفاق اور وفاقی کمپنیوں کی اجارہ داری قائم ہے جو قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، سمندر سے نکالنے والا گیس اور تیل کے ذخائر پر کس کا قانون حق ہوگا؟

اس کا قانونی اور آئینی جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ سمندر سے نکلنے والے گئس اور تیل کے ذخائر کو 18 ویں آئینی ترمیم بھی تحفظ نہیں فراہم کرسکی ہے، اس کے لئے سندھ کو آگے آنا ہوگا، آئین میں زمین اور سمندر سے نکلنے والے ذخائر پر مالکی کے لئے الگ الگ قوانین ہیں، موجودہ قوانین میں گیس اور تیل کے ذخائر وفاق کے پاس چلے جائیں گے، جو صوبہ سندھ کے لئے نقصان کا باعث ہے، آیئے سمندر اور زمین سے ملنے والے ذخائر پر قانونی پوزیشن کا جائزہ لیں۔

آئین کے آرٹیکل 172 ( 2 ) کے مطابق سمندر کے وسائل پر صوبوں کا حق ہے، لیکن ان کی حدود کا تعین کیا گیا ہے، ان حدود سے باہر کا علاقہ سیدھا وفاق کے زیر انتظام آتا ہے، ہر ملک میں سمندر سرحدی حدود 200 ناٹیکل میل ہوتی ہیں، اس سے آگے کی حدود کانٹی نینٹل شیلف کہلاتی ہیں، اور 200 ناٹیکل میل زمینی تقریباً 370 کلومیٹر کے برابر ہے، یہ فاصلہ کم ہے کیونکہ ملکی حدود کانٹی نینٹل شیلف سے بھی کافی آگے ہوتی ہیں، اگر گیس اور تیل کانٹی نینٹل شیلف سے آگے نکلتے ہیں تو وہ سیدھے وفاق کے زیر انتظام آجائیں گی، اور اس وقت ان ذخائر کی تلاش بھی گہرے پانیوں میں ہورہی ہے، آئین کا آرٹیکل 172 ( 2 ) کہتا ہے

All lands, minerals and other things of value within the continental shelf or underlying the ocean beyond the territorial waters of Pakistan shall vest in the federal government

ترجمہ پاکستان کے سرحدی پانیوں سے آگے کانٹی نینٹل شیلف اور گہرے پانیوں میں ملنے والی معدنیات اور زمین وفاق کی ملکیت ہوگی)

اٹھارویں ترمیم سے پہلے 200 ناٹیکل میل کے اندر بھی ملنے والی معدنیات اور زمینیں وفاق کے زیر انتظام تھی، لیکن اٹھارویں ترمیم میں تبدیلی لائی گئی کہ ملک کی سرحدی پانیوں سے بھی آگے ملنے والی معدنیات صوبوں کی ملکیت ہوگی، تمام ممالک میں سرحدی حدود کم ہوتی ہیں جو کہ 200 ناٹیکل میل ہوتی ہیں، جو کہ کم ہیں، اصل میں کانٹی نینٹل شیلف والا علاقہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے جو تازہ بین الاقوامی معاہدوں کے بعد اہمت کا حامل ہے، سندھ حکومت کو اس معاہدے پر نظر رکھنی چاہیے، اگر وفاق نے ایکسن موبل اور ای این آئی سے معاہدے کے وقت 200 ناٹیکل میل کی شقوں پر معاہدہ کیا ہے تو ان معدنیات پر پورا کنٹرول وفاق کا ہوگا۔

زمین سے نکلنے والی معدنیات:

زمین سے نکلنے والی معدنیات، کوئلہ، سونا، چاندی، گرینائیٹ وغیرہ جیسی معدنیات پر پورا کنٹرول صوبے کا ہوتا ہے، پر 18 ویں ترمیم کے بعد 172 ( 2 ) میں ترمیم کرکے 172 ( 3 ) کے بعد تیل اور گیس پر کنٹرول بھی صوبوں کو حاصل ہوگیا ہے، اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 161 کے تحت جس علاقے سے گیس نکلتی ہے اس کی رائلٹی وغیرہ اسی صوبے کو ملے گی،

لیکن تیل پر ایکسائز ڈیوٹی صوبوں کو دی جاتی ہے، تیل اور گیس پر ڈیوٹی اور سرچارج بھی صوبوں کی ملکیت ہے، لیکن حکومت نے کچھ عرصہ قبل اسی مد میں جمع ہونے والے ڈیڑھ سو ارب روپے وفاق نے رکھ لئے جو آئین کی سنگین خلاف ورزی ہے اور صوبہ سندھ نے ابھی تک اس معاملے کو وفاق کے ساتھ نہیں اٹھایا، یہ سندھ کے عوام کا پیسہ ہے جو سندھ کی ترقی پر خرچ ہونا ہے۔

وفاقی سرکار کو سرچ اور جیولاجیکل سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ معدنیات کہاں کہاں سے نکلنے کے زیادہ چانسز ہیں تو وفاق پہلے سے قانون سازی کے ذریعے بندوبست کرلیتا ہے، جس طرح انڈین ایکٹ 1935 (جو پاکستان کا 1956 تک قانون رہا) کے تحت گیس پر صوبوں کا کنٹرول تھا، جیسے وفاق کو معلوم ہوا سوئی سے گیس نکل رہی تب 1956 میں گیس اسم کو وفاق کے حوالی کردیا گیا، اسی طرح وفاق کو معلوم ہوگا کہ گہرے پانیوں میں قدرتی ذخائر کی موجودگی کے سبب 18 ویں ترمیم کو زیر کرنے کے لئے وفاقی سرکار سندھ حکومت کو پریشرائیز کررہی ہے

ملک کے چار بڑے ٹیکسز، انکم ٹیکس، اشیاء پر سیلز ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی اور ایکسائز ڈیوٹی تمام وفاق کے زیر انتظام ہیں، سندھ کو اب اشیاء پر سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کے حصول کے لئے وفاق سے بات کرنے ہو گی، کیونکہ آگے چلکر کسٹم اور دیگر اہم معاملات نے جگھ لینے ہیں، کیونکہ سندھ نے سروسز پر سیلز ٹیکس کا ایک سو ارب کا سالانہ ہدف سات ماہ میں مکمل کرلیا ہے، جس کا کریڈٹ سندھ حکومت خاص طور پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو جاتا ہے، یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہے، اب ضروری ہوگیا ہے کہ اشیاء پر سیلز ٹیکس جس کا تخمینہ تقریباً 1700 ارب روپے ہے، جس کی پچاس فیصد سے زائد وصولی صوبہ سندھ سے ہوتی ہے، کو سندھ کے حوالے کیا جائے، جو انڈین ایکٹ 1935 کے تحت صوبائی اسم تھا۔

صوبوں کی ترقی، تعلیم صحت و دیگر شعبوں میں ترقی کا دارومدار وہاں کے آئین پر ہوتا ہے کہ فیڈریشن اپنے صوبوں کو کتنا خودمختیار رکھتا ہے، صوبوں کے اپنے وسائل پر صوبوں کی کتنی دسترس حاصل ہوتی ہے، ورنہ وسائل کی موجودگی کے باوجود صوبے ترقی میں پیچھے رہ جاتے ہیں، صوبہ سندھ کے وسائل کو صوبے سے نہیں چھینا جاسکتا، ہاں البتہ وسائل کے صحیح استعمال یقینی بنانا چاہیے، سندھ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے سرحدی یا زمینی حدود سے نکلنے والی معدنیات کے لئے آئین کی نئی سرے سے تشریح کے لئے زور دینا چاہیے، پارٹی مفادات کو بالائے تاک رکھتے ہوئے سندھ کی عوام کی خوشحالی کے لئے صوبہ کی حکومت کو وفاق کے سامنے اپنا بھرپور موقف رکھنا ہوگا، گہرے پانیوں سے ملنے والے ذخائر ہوں یا زمینی معدنیات، سندھ کو اپنا بھرپور موقف اختیار کرنا ہوگا، وفاق پہلے ہی سندھ کے جائز آئینی اور قانونی طور پر ملنے والے وسائل پر قابض ہے، سندھ کی تعمیر، ترقی، تعلیم صحت و دیگر شعبوں میں ترقی کے لئے نیا آئینی فریم ورک تیار کرنا ہوگا۔ جو کہ سندھ کے مفاد میں ہو۔
یہ کالم بئریسثر ضمیر گھمرو کی اجازت کے بعد ان کے سندھی کالم کا ترجمہ ہے

رب نواز بلوچ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

رب نواز بلوچ

رب نواز بلوچ سماجی کارکن اور سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہتے ہیں، عوامی مسائل کو مسلسل اٹھاتے رہتے ہیں، پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ ٹویٹر پر @RabnBaloch اور فیس بک پر www.facebook/RabDino اور واٹس ایپ نمبر 03006316499 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

rab-nawaz-baloch has 30 posts and counting.See all posts by rab-nawaz-baloch