خدا خیر کرے میرے آشیاں کی


موجودہ حکمرانوں کے برسراقتدار آتے ہی کچھ ایسے مسلمہ ریاستی امور کو متنازعہ بنایا گیا جس سے حکومت کو نہ صرف اپنا بیان واپس لینا پڑا بلکہ سبکی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ سب سے پہلے ایک با تدبیر وزیر نے سی پیک کے حوالے سے ایک شوشہ چھوڑا جو چند دن کے بعد حکومت نے وزیر کی ذاتی رائے کہ کر جان چھڑائی جس کے بعد پاکستان کے چیف صاحب کو چین کا دورہ کرنا پڑا۔ پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے حکومتی ذمہ داروں کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو اخبارات کی زینت بنی۔ جو بعد ازاں وقتی مصلحت کے باعث دب گئی یا دبا دی گئی۔ بعد ازاں اٹھارہویں آیئنی ترمیم کے حوالے سے ایک خوش گلو و خوش گفتار وزیر نے اپنی پہلے سے اونچی سیاسی دکان کو مزید اونچا کرنے کی کوشش کی۔ یہ وہی شیریں دہن وزیر ہیں جن کی خوش کلامی کی سماعت سے سینٹ آف پاکستان نے دو بار معذرت کی۔

پاکستان ایک کثیرالنسل ملک ہے جس کے چاروں صوبوں میں رہنے والے اگرچہ ایک مذہب کو مانتے ہیں تاہم وہ اپنی الگ الگ نسلی ثقافتی اور لسانی پہچان بھی رکھتے ہیں جس کے ساتھ اپنی شدید وابستگی کا اظہار کرتے ہیں، اس پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔ ماہرین سیاسیات ایسے ممالک کے لئے وفاقی نظام حکومت تجویز کرتے ہیں۔ وفاقی نظام حکومت ایسا دوہرا حکومتی نظام ہے جس میں تمام اختیارات مرکزی اور صوبائی حکومت میں اس طرح تقسیم ہوتے ہیں کہ صوبے اپنے وسائل و اختیارات کے استعمال میں آزاد ہوتے ہیں تاہم کچھ اختیارات مرکزی حکومت کو باہمی رضامندی سے تفویض کیے جاتے ہیں۔ اور مرکزی حکومت آیئن میں درج اپنے اختیارات کو استعمال کرتی ہے۔ جس سے مختلف نسلی و لسانی گروہ نہ صرف اپنی صوبائی حکومت پر حق حکمرانی سے مطمئن ہوتے ہیں بلکہ دیگر صوبوں اور مرکز کے استحکام کا باعث بھی بنتے ہیں۔ مشترکہ معاشی سیاسی اور تزویراتی مقاصد کے حصول کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

اگرچہ پاکستان کو یہ نظام ورثے میں ملا ہے تاہم پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد تحریک پاکستان کی قیادت کی سیاسی بصیرت نے شعوری طور پر اس کو اختیار کیا۔ تحریک پاکستان میں اس خطے میں بسنے والے مختلف نسلی و لسانی گروہوں کی سیاسی قیادت نے بھر پور حصہ لیا۔ پنجاب، سندھ خیبر، پختونخوا، بلوچستان اور بنگال کی تمام نسلی و لسانی کمیونٹیز کی سیاسی قیادت قائد اعظم کے شانہ بشانہ شامل حال رہی۔ اور پاکستان ہی میں اپنی آئیدہ نسلوں کے لئے اپنی آنکھوں میں امن و خوشحالی کے خواب سجائے۔

خیبر پختونخوا سے خان عبدالغفار خان نے پہلے ریفرینڈم کا بائیکاٹ کیا تاہم بعد میں وہ بھی اس پر قائل ہو گئے کہ خطے کے لوگوں کے لئے پاکستان ناگزیر ہے۔ جس میں وفاق کی ہر اکائی اپنے سیاسی و معاشی حقوق کے حصول کے لئے آزاد ہو گی۔ اسی لئے پاکستان میں بننے والے آئین وفاقی آئین بنائے گئے۔ 1973ء کا آئین پاکستان کی زیرک سیاسی قیادت کی سیاسی پختگی کا مظہر ہے۔ جس میں ذوالفقار علی بھٹو، مولانا مفتی محمود، خان عبدالولی خان، جناب :غوث بخش بزنجو جیسے کہنہ مشق سیاست دانوں نے حصہ لیا اور قوم کو ایسا شاندار عمرانی معاہدہ دیا جو نہ صرف تمام نسلی و لسانی حلقوں کا متفقہ معاہدہ تھا بلکہ پاکستان کے استحکام، ارتقا اور بقا کا ضامن بھی تھا۔

پاکستان میں بسنے والے تمام نسلی گروہوں کے حقوق کا ایسا ضامن ہے جس نے گروہ در گروہ بکھرے سماج کو مشترکہ نصب العین دے کر متحد کر دیا۔ بعد میں آنے والے آمروں نے اس آئین میں اپنی مرضی کی ترامیم کر کے ایسا حلیہ بگاڑا کہ اصل آئین کی روح تک مجروح ہو کر رہ گئی۔ اختیارات کا ارتکاز پاکستان کی وفاقی اکائیوں کے درپے ہو گیا۔ چھوٹے صوبوں اور قومیتوں کا احساس محرومی بڑھنے لگا۔ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت، بے نظیر بھٹو کی شہادت نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

درایں حالات 2010ء میں آئین کی ا ٹھارہویں ترمیم کے ذریئے صوبوں کو مذید اختیارات دے کرحق بحق دار رسید کو پہنچایا گیا، وفاقی آیئنی سقم کو دور کیا گیا اور صوبوں کے احساس محرومی کو کم کر کے استحکام پاکستان کی طرف ایک قدم بڑھایا گیا۔ اٹھارہویں ترمیم نے وفاق کو مضبوط کیا، 1973ء کے آئین کی روح کو بحال کیا، آئین سے آمرانہ دور کی یادگاروں کا خاتمہ کیا۔ سیاسی نابالغ اٹھارہویں ترمیم پر لاف زنی کر کے نجانے کس کے ایجنڈے کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد یہ قوم کسی اور سانحے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
خدا خیر کرے میرے آشیاں کی، اس پر پھر نظر ہے آسماں کی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).